• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے دس سیاسی جماعتوں کا اتحاد ٹوٹنے کا اگرچہ باقاعدہ اعلان نہیں ہوا لیکن اس کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ اگر یہ سیاسی اتحاد برقرار بھی رہا تو یہ ایک رسمی اتحاد ہو گا، جسے محض اس لئے برقرار رکھا جائے گا کہ اسے توڑنے کا الزام کوئی اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔ کچھ عرصے کے بعد سب سیاسی جماعتیں خود ہی اس سے لاتعلق ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے کم مدت والا سیاسی اتحاد ہو گا۔ ایسا کیوں ہوا؟ پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کیلئےاس کے اسباب جاننا بہت ضروری ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ اگر پی ڈی ایم 26مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے اپنے پروگرام پر عمل درآمد کرتا تو اس سے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو جاتا۔ یہ اصل بات تھی، جو پی ڈی ایم میں دراڑ پیدا کرنے کا سبب بنی۔ لانگ مارچ کے ممکنہ اثرات پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات اور اہداف سے بالاتر تھے۔

بظاہر تو پاکستان پیپلز پارٹی کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری کی اس بات کو بھی بہت اچھالا جا رہا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور ان کا ڈومیسائل دوسرے صوبے کا ہے۔ آصف علی زرداری کی اس بات کی یہ تاویل پیش کی جا رہی ہے کہ پیپلز پارٹی ہیئت مقتدرہ سے ٹکراو نہیں چاہتی۔ وہ نہ صرف پچھلے قدموں پر چلی گئی ہے بلکہ مبینہ طور پر سمجھوتے کی سیاست کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اور دیگر رہنما بار بار یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سیاست میں صف بندی ہو چکی ہے۔ ان کی صف میں وہ لوگ شامل ہیں، جو انکے بیانیہ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ مخالف ہیں۔ دوسری صف کے بارےمیں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہیں۔ کیا یہ بیانیہ درست ہے؟ اگر یہ بیانیہ درست ہوتا تو آصف علی زرداری کا اکلوتا بیٹا یہ سوال کیوں کرتا کہ لانگ مارچ کو پارلیمنٹ سے استعفوں کے ساتھ کیوں جوڑا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کی سیاسی جماعت لانگ مارچ کو ملتوی یا منسوخ کرنے کی حامی نہیں تھی۔ لانگ مارچ کس نے اور کیوں ملتوی یا منسوخ کرایا؟ اس سوال کا جواب بہرحال ڈھونڈنا ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ کا آخری بڑا لانگ مارچ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں ہوا، جس میں پیپلز پارٹی بہت زیادہ تنقید کے بعد مجبوراً تاخیر سے شامل ہوئی لیکن پرویز مشرف کے خلاف اس تحریک میں سب سے زیادہ قربانیاں پیپلز پارٹی نے ہی دیں۔ کراچی میں بھی 12مئی 2007ءکو سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کے کارکن مارے گئے اور راولپنڈی میں تو صرف پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ہجوم میں دھماکا ہوا اور درجنوں کارکن مارے گئے۔ بعد میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ موقف درست ثابت ہوا کہ افتخار چوہدری والی ’’وکلا کی تحریک‘‘ کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما تھیں اور ان کا ہدف کیا تھا؟ وقت نے ثابت کیا کہ یہ مقتدر حلقوں کی پشت پناہی سے چلنے والی تحریک تھی، جو اپنے جوہر میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں تھی۔ اسکا نتیجہ بھی مقتدر حلقوں نے طے کیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے، جو اس وقت بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور انقلابی بنتے تھے۔ اس کے برعکس پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اگر ہو جاتا تو یہ مختلف نتائج کا حامل ہوتا۔ اس لئے یہ لانگ مارچ نہیں ہونے دیاگیا اور کیایہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی پر لانگ مارچ ملتوی کرانے کا الزام لگایا جا سکتا ہے؟

پی ڈی ایم میں اگرچہ مختلف مفادات کی حامل سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اہداف کے مطابق سیاست کر رہی تھیں لیکن بہت عرصے بعد یہ ایک حقیقی سیاسی تحریک بن رہی تھی۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے؟ ملکی اور عالمی ہیئت مقتدرہ کی بے رحمانہ طاقت اور سیاست پر ان کے مکمل کنٹرول کی طرف اشارہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی مالیاتی خود مختاری کے مجوزہ بل، منی بجٹ، بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کے فلڈ گیٹ کھولنے کے آئی ایم ایف کے پروگرام پر جو عمل درآمد ہو رہا ہے، اسے کیا پارلیمنٹ کے استعفوں کے ذریعہ روکا جا سکتا ہے؟ کیا اس سے پاکستان میں حقیقی جمہوریت قائم ہو سکتی ہے؟ کیا پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کی سیاست میں مداخلت ختم ہو سکتی ہے؟ کیا پاکستانی مقتدر حلقوں کو ان کے عالمی آقاؤں کی تابعداری کرنےسے روکا جا سکتا ہے؟ لانگ مارچ سے بھی بڑا فائدہ ہوتا لیکن اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ،یہ ہموار طریقے سے شاید نہ ہوتا۔ حقیقی عوامی تحریک چاہے جتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو، اس کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ ایم آر ڈی کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ اس لئے پی ڈی ایم کا سیاسی اتحاد اپنے اس انجام کو پہنچا ہے۔

تازہ ترین