• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ کی حالیہ فتح میں جہاں پیپلزپارٹی کی بدترین کارکردگی، نااہلی اور عوام کے مسائل میں اضافہ شامل ہے وہیں اس کا کریڈٹ مسلم لیگ کے لیڈر نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی جاتا ہے جنہوں نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ہر لحاظ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ خصوصاً نواز شریف نے گزشتہ پانچ سال کے دوران خلافِ توقع جس طرح بردباری، تدبّر اور مفاہمت کا مظاہرہ کیا، وہ حیران کن ہے کیونکہ 99ء سے پہلے والا نوازشریف آج کے نوازشریف سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ 99ء تک نوازشریف اقتدار کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رہتے تھے بلکہ یوں کہئے کہ پاکستان کی تاریخ میں 88ء سے 1999ء تک گیارہ سال کا عرصہ اس لحاظ سے ”بدترین دور“ تھا جب ضیاء کے بعد پاکستان کی جمہوری قیادت نوجوان نسل کے ہاتھ میں آئی۔ جن کے نمائندے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف تھے۔ جن سے توقع تھی کہ وہ آمریت کے لگائے ہوئے زخموں کو مندمل کرنے اور جمہوریت کی آبیاری کے ذریعے ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ جس میں ماضی کی تلخیاں دفن کر دی جائیں گی اور مفاہمت کے ذریعے ”محلّاتی سازشوں“ کے دروازے بند ہو جائیں گے جہاں سے غیر آئینی اور غیر جمہوری طاقتیں جمہوری ایوان میں نقب لگاتی رہی ہیں لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور وہ دور جس میں جمہوریت کو مستحکم کیا جا سکتا تھا محاذآرائی، محلّاتی سازشوں اور ایک دوسرے کو گرانے کے لئے جوڑ توڑ کی نذر ہو گیا۔ اس سے نہ صرف جمہوریت بدنام ہوئی بلکہ ملک کا ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہو گیا اور غیر جمہوری طاقتوں نے اپنی سازشوں کے ذریعے ملک کو ایک مرتبہ پھر فوجی آمریت کی دلدل میں پھینک دیا۔ اس ضمن میں میاں نوازشریف نے وہ سب کچھ کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انتخابات میں ہیر پھیر، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے چھانگا مانگا آپریشن، سیاسی مخالفین کے لئے عدم برداشت اور انتقامی رویّے وغیرہ وغیرہ اسی دور کی ”بُری یادیں“ ہیں۔ وہ یہاں تک کہتے رہے کہ پیپلزپارٹی کا نام سن کر اُن کا خون کھول اُٹھتا ہے اور وہ محاذ آرائی کے ذریعے ہی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے اپنے آخری دور میں سیف الرحمن کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلاوطن ہونے پر مجبور کردیا… جب وہ اپنے مخالفین کو اپنی دانست میں ٹھکانے لگا چکے تھے اور ہیوی مینڈیٹ کے ذریعے حکومت کر رہے تھے تو وہ اس وقت اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھ رہے تھے لیکن درحقیقت وہ انتہائی کمزور اور تنہا ہو چکے تھے۔ جب سیاسی پارٹیاں سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد میں تبدیل نہیں کرتیں تو ان کی واحد کمٹمنٹ جمہوریت کے استحکام کے ساتھ وابستہ رہتی ہے اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں وہ فوراً غیر جمہوری طاقتوں کے خلاف اکٹھی ہو جاتی ہیں لیکن جب کوئی جماعت خود کو دوسری سیاسی جماعتوں سے علیحدہ کر لے تو غیر جمہوری طاقتیں اس پر آسانی سے غلبہ پا لیتی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی نوازشریف کے ساتھ 1999ء میں ایسا ہی کیا اور نوازشریف کی مدد کو کوئی سیاسی جماعت نہ آسکی جنہیں وہ پہلے ہی اپنی انتقامی کارروائیوں کے ذریعے خود سے دور کر چکے تھے۔ بہرحال 1999ء کے بعد نواز شریف کو جمہوری عمل میں مفاہمت، تحمل، بردباری، برداشت اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا احساس ہوا۔ جس کا پہلا مظاہرہ ”میثاقِ جمہوریت“ کے ذریعے ہوا جس میں ملک کی دو بڑی مدمقابل اور حریف سیاسی پارٹیوں نے یہ عہد کیا کہ آئندہ جمہوریت کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گی اور اپنی سیاسی مخالفت کو اس حد تک نہیں لے جائیں گے جہاں غیر جمہوری طاقتیں جمہوریت پر شب خون مار سکیں۔
یہ اسی مفاہمت، رواداری اور برداشت کا نتیجہ ہی ہے کہ پاکستان میں 65سال کے بعد پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے نہ صرف اپنی میعاد پوری کی بلکہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے سے بچنے کے لئے متفقہ عبوری نگران حکومت کے ذریعے انتخابات کرائے جس میں اسے شکست ہوئی۔ اس نے اپنی شکست تسلیم کی اور اپنی حریف فاتح سیاسی پارٹی کو اقتدار منتقل کر دیا۔ اپنی انتظامی، مالی امور اور سیاسی کمزوریوں کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت نے مفاہمت ، تحمل اور رواداری کی جو اعلیٰ مثالیں چھوڑی ہیں اُس پر انہیں شاید آج نہیں لیکن کل ضرور سراہا جائے گا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی حکومت تھی جس میں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا اور ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ جب ایک صدر نے اپنے تمام اختیارات رضا کارانہ طور پر پارلیمینٹ کے حوالے کر دےئے عدلیہ ، میڈیا ، اسٹیبلشمنٹ اور سول سوسائٹی کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب خندہ پیشانی سے دیا۔ یہ وہ اچھی لیکن مشکل روایات ہیں جنہیں نواز شریف کو نہ صرف اپنانا ہو گا بلکہ اسے ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بھی بنانا ہوگا۔
میاں نواز شریف نے عمران خان کی عیادت کے ذریعے اور فضل الرحمن کی KPKمیں سازشوں کے ذریعے حکومت بنانے کی پیشکش کو ٹھکرا کر اور بلوچستان میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود قوم پرستوں کو حکومت بنانے کا موقع دیکر ثابت کر دیا ہے کہ 2013ء کا نوازشریف ایک نیا نوازشریف ہے جسے اقتدار سے زیادہ سیاسی اقدار عزیز ہیں۔ ہر لحاظ سے پستی کی طرف جاتے ہوئے پاکستان کو اگر بچانا ہے اور ایک نیا پاکستان بنانا ہے تو پرانے سیاسی لیڈروں کو بھی تبدیل ہونا پڑے گا اور خود کو ذاتی، جماعتی اور گروہی مفادات سے نکال کر قومی مفادات کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ خدا کرے کہ قومی مفاہمت، رواداری اور برداشت جیسی خوبیاں ہمارے تمام سیاستدانوں میں رچ بس جائیں تاکہ ہم بھی ایک روشن ، مستحکم اور خوشحال نیا پاکستان دیکھ سکیں۔
تازہ ترین