• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”کیوں پہلوان جی! لسی ہے ؟“
”ہزاراں من شہزادے“
”تو پھر ایک گلاس لسی بنا دو“
”چینی ڈال کے یا نمک ڈال کے؟“
”چینی ڈال کے“
”برف کے ساتھ یا برف کے بغیر؟“
”برف کے ساتھ“
”پیڑوں سمیت یا پیڑوں کے بغیر سادہ لسی؟“
”پیڑے ڈال کے“
”دودھ والی یا دہی والی؟“
”دہی والی“
”دہی تو ختم چکا“
”تو دودھ والی ہی بنا دو“
”دودھ تو صبح سے ہی ختم ہے“
خیبر پختونخوا سے کراچی تک براستہ پنجاب ایساہی تاریخی مکالمہ جاری ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ”گاہکوں“ اور ”پہلوانوں“ کے درمیان یہ طویل مکالمہ اس جملہ پر ختم ہوکہ ”دہی کے ساتھ ساتھ دودھ بھی ختم ہو چکا“ کہیں لون کہیں ڈرون، کہیں اندھیرے کہیں مہنگائی کے ڈیرے۔ مبارکبادوں اور مٹھائیوں کی اندھی آندھی تھمے تو دیکھیں نقد نتیجہ کیا نکلا۔
قومی اسمبلی میں کی گئی تقریروں میں سب سے کنفیوژنگ تقریر بزرگ ٹین ایجر جاوید ہاشمی کی تھی جو اس عمر میں بھی سٹوڈنٹ لیڈری جاری رکھے ہوئے ہے۔ جوش جذبات میں کیا جملہ ارشاد فرمایا، مکرر ارشاد کہ ”نواز شریف میرے لیڈر تھے اور ہیں“ بندہ پوچھے اگر ”تھے“ بھی اور ”ہیں“ بھی تو عمران خان کے ساتھ تم گلی ڈنڈا کھیلنے یا ایکسرسائز کرنے گئے تھے۔ اور کیا تحریک انصاف میں جھک مار رہے ہو؟ ادھر لوگ بیچاری فوزیہ قصوری کا قصور پوچھ رہے ہیں۔ دو دن تو میں نے اس سوال کو نظرانداز کیا لیکن جب دباؤ ایک حد سے آگے بڑھ گیا تو ٹوئیٹر پر دل کھول کر رکھ دیا اور کچھ یوں کہ …” فوزیہ قصوری کی بے قصوری ہی اس کا قصور ہے۔“ رسپانس کا اندازہ لگانا ہو تو ٹوئیٹر کی دنیا میں جھانکیے اور یہ بھی جان لیجئے کہ میں آج تک فوزیہ قصوری سے صرف آدھی بار ملا ہوں لیکن کریں کیا کہ تحریک انصاف میں ”فکری چوزے“ اور ”کارپوریٹ بچونگڑے“ کسی جینوئن آدمی کے پاؤں ہی نہیں لگنے دے رہے۔ 17/6/6 سال پہلے تحریک انصاف شروع ہوئی تو جوانی اور جوش کا عروج تھا لیکن چند ماہ کے اندر اندر میں نے کہا لعنت اور بوریا بستر سمیٹ کرگھر چل دیئے۔ تب تحریک کا دفتر سکاچ کارنر پر تھا جب میں نے انہیں ”سکاچ کارنر کے جانی واکر“ اور ”سیاسی جوکر“ لکھنا شروع کیا، باقی سب ”ہسٹری“جسے جاننے والے خوب جانتے ہیں۔ بے شک آج پی ٹی آئی میں ماضی کی نسبت بہت بہتر ہیومن میٹریل موجود ہے لیکن جو ہونا چاہیے اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ لیڈر شپ کا یہ رویہ بہت ہی ناقص ہے کہ کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حضرت امیر معاویہ سے کسی نے ان کی سیاسی کامیابیوں کا راز جاننا چاہا تو فرمایا ” اگر ایک بار کسی وحشی بدو کے ساتھ بھی میرا تعلق استوار ہوگیا اور وہ تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہو کر صحرا کی طرف اس طرح بھاگ نکلا کہ اس کے اور میرے درمیان صرف کچے سوت کا دھاگہ تھا تو میں نے وہ دھاگہ ٹوٹنے نہیں دیا“
یہ ہے لیڈر شپ، وزڈم، خوئے دلنوازی اور وہ کیا کہ ایک طرف سے جانور باڑے میں گھس رہے ہیں اور دوسرے دروازے سے نکلتے جا رہے ہیں۔ میں تو سستی کا مارا ہوا، وقت نہ انرجی، پڑھنے لکھنے اور پودے پرندے سنبھالنے سے ہی فرصت نہیں لیکن کوئی توہو جو عمران خان کو بتائے کہ انسان قیمتی ہوتے ہیں اور امیر کارواں باپ اور ماں کا امتزاج ہوتا ہے۔
ادھر کیسا بیمار اور خستگی کا مارا مائنڈسیٹ ہے کہ میں نے بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی نامزدگی والے فیصلے کی تعریف کی تو طعنہ ملا کہ اس لئے کیونکہ ان کی حکومت آ رہی ہے۔ درفٹے منہ ایسی تعلیم ؟ تربیت؟ اور گرومنگ ؟ کے کہ شاید کچھ بھی نصیب نہیں۔ لکھ لکھ انگلیاں گھس گئیں کہ صرف اور صرف ”فکری قلی“ ہی دیوی دیوتا بناتے اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کوئی سو فیصد ”ہیرو“ یا سو فیصد ”ولن“ نہیں ہوتا۔ کیس ٹو کیس دیکھو۔ صحیح کی تعریف غلط فیصلہ پر تنقید مثلاً ٹکٹوں کی تقسیم پر ثبوتوں سمیت حقائق سامنے آئے تو میں نے پی ٹی آئی پر ڈانگ اٹھالی تھی اور وجہ صرف اتنی کہ اچھے سے اچھا امیدوار دو تاکہ دو بروں میں سے ایک چننے کی بجائے دو اچھوں میں سے ایک چننے کا چوائس ووٹر کے پاس ہو مثلاً میرا اپنا حلقہ پی پی 161 جس میں پی ٹی آئی نے اعلیٰ تعلیم یافتہ رانا جاوید عمر کے مقابلہ پر ایک مڈل پاس کو ٹکٹ دیدیا تو دوسری طرف ن لیگ نے اس سے بڑھ کر کام دکھایا کہ میرٹ پر فیصلہ کرنے کی بجائے شہباز شریف خود امیدوار بن بیٹھے تاکہ جیتنے کے بعد جسے چاہیں ”سیٹ“ عطا فرما دیں حالانکہ تعلیم، شہرت، ساکھ حتیٰ کہ برادری تک کے حوالہ سے نوجوان شہزاد نذیر سندھو ایڈووکیٹ بہترین انتخاب تھا لیکن پی ٹی آئی ہو یا ن لیگ ان کی اپنی اپنی دنیا اور وجوہات تھیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ غیر مشروط نہ محبت ہوتی ہے نہ نفرت۔ اگر ”مجبوریاں“ اور ”مفادات“ آڑے نہ آئیں تو پرفارمنس ہی اصل کسوٹی ہے۔
مجھے عمران بحیثیت انسان اور لیڈر سب سے بہتر لگتا ہے لیکن اگر ن لیگ چند ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردے، ملکی معیشت کو پٹڑی پر ڈال دے، مہنگائی کنٹرول کرلے، ڈورن کا رخ موڑ دے (میں جان بوجھ کر دہشت گردی کا ذکر نہیں کر رہا) تو کیا مجھے پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں اسے داد نہ دوں؟ قبائلی سرداروں کی سرزمین پر ڈاکٹر مالک جیسے متوسط طبقے کے پروفیشنل کا انتخاب خوب صورت فیصلہ تھاسو کھلے دل سے تعریف کردی، باقی یار زندہ صحبت باقی، دیکھتے جاؤ!
چلتے چلتے اس ”اقتدار خور“ خبر پر بھی ایک نظر کہ ”سابق صدر رفیق تارڑ اور ”سابق“ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایوان صدر کے باہر اپنی اپنی گاڑیوں کے لئے ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔
یہ سب ”بنجارے“ گھنٹوں کی مار ہیں اور یہ چند روزہ اقتدار انعام نہیں امتحان ہے جس کا نتیجہ نکلنے میں زیادہ دیر نہیں۔ یہ یورینیم کے پہاڑ نہیں، اس مٹی کی ڈھیریاں ہیں جس سے کمہار برتن بنانا بھی پسند نہ کرے!
نہ کوئی زرداری بھاری
نہ کوئی مینڈیٹ بھاری
رہ گئے محمود اچکزئی تو پسند آئے نہ آئے بات محمودنے سومنات ڈھانے جیسی کردی ہے۔ جس میں جرأت ہو کلراٹھی زمینوں کے کرونڈیئے سانپوں والے جار میں ہاتھ ڈال کر دیکھ لے۔ سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں 99 سے صفر ہونے میں دیر نہیں لگتی!
بارہ اکتوبر کی ایک بری عادت یہ ہے کہ ہر سال آ جاتا ہے اور کبھی کبھی اس نے پانچ جولائی کا ماسک بھی پہنا ہوتا ہے۔
تازہ ترین