• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجود انتخابات سے جو بھی نتیجہ سامنے آیا ہو یا جو بھی منزل سر کر لی گئی ہو، ان کے نتیجے میں اخبارات ، جن کی چیختی ہوئی شہ سرخیاں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے متعدد تاریخ ساز لمحات کی دہائی دے رہی ہیں، تقریباً ناقابل ِ مطالعہ ہو چکے ہیں جبکہ ٹی وی کے بزرجمہر وفور ِ جذبات میں بے خودی کی اتنی منزلیں سر کر چکے ہیں کہ معمولات ِ زندگی، جیسا کہ چائے کا ایک کپ پینا، بھی عقربی تاریخی واقعات کے ہم پلہ دکھائی دیتے ہیں۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ کے دور ِ صدارت میں اقتدار سنبھالا تو اُس تاریک شام، جب ملک میں جنگ کی وجہ سے بلیک آؤٹ تھا، ان کی تقریر شکست خوردہ قوم کو صبح ِ درخشاں کی نوید سنارہی تھی․․․”طویل سیاہ رات کا خاتمہ ہو چکا ہے“۔ میں، اس وقت نوجوان کپتان والٹن ، لاہور ، میں طیارہ شکن توپ پر متعین تھا، نے سوچا کہ مصائب کا دور ختم ہونے کو ہے اور کوئی دن جاتا ہے جب ہم نئے دور کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہوں گے۔ وہ لمحات بھی یقیناً خوشی اور امید کے پیغام بر تھے، لیکن پھر کیا ہوا؟بھٹو کی بالا دستی حاصل کرنے کی خواہش اُن کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس سے پہلے کہ ہم ”نوجوان “ اُن خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرتے دیکھتے، 1977 کے انتخابات کے معرکے کے لئے اسٹیج تیار کر دیا گیا ۔ اس کے بعد طویل احتجاجی مظاہر ے شروع ہو گئے۔ اس ڈرامے کا ایپی لاگ (اختتامیہ) پارسائی کا لبادہ اُوڑھے، چہرے پر دھیمی مسکراہٹ اور آستین میں خنجر چھپائے جنرل ضیا الحق نامی ایک مصنف نے لکھا۔اپنے اقتدار کا جواز فراہم کرنے کے لئے اُنھوں نے اسلام کا پرچم لہرایا ۔ اس سے پہلے بھی پاکستان بہت سے مسائل کا شکار تھا لیکن نیکی ، پرہیزگاری اور نظریات کے نام پر کی جانے والی یہ جراحت سب سے سوا تھی۔ اگرچہ میں اس وقت پی ایم ایل (ن) کے لئے کوئی بدمزگی پیدا نہیں کرنا چاہتا لیکن کیا یہ بات غلط ہے کہ نواز شریف بھی اُسی دور کی پیداوار ہیں؟ فیلڈ مارشل ایوب خان(جو پتہ نہیں کس جنگ کے فاتح تھے، مگر اسے بھی تاریخی کہا جاتا ہے) نے بھٹو کی سرپرستی کی، تو جنرل ضیا ء نے نواز شریف کی، لیکن ماضی کو فراموش کر دینا ہمارے قومی اوصاف میں سے ایک (واحد؟) ہے۔
پھر جب جنرل ضیاالحق راہی ِ ملک ِ عدم ہوئے تو 1988 میں بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم بنیں۔ نصرت بھٹو مرحومہ بڑی والہانہ نظروں سے اپنی نوجوان صاحبزادی کو حلف اٹھاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صنم بھٹو کی نظریں بھی اپنی بہن کے چہرے سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ اُن تاریخ ساز لمحوں میں پاکستان میں جمہوریت اپنی جڑیں گاڑ رہی تھی لیکن پھر بدقسمتی سے ایوان ِ صدر میں مسند نشیں ایک سابقہ بیوروکریٹ غلام اسحاق اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے اس نوخیز جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے بعد پھر ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر بدعنوانی اور لالچ کا دور دورہ ہو گیا۔ اس میں پھر دوسروں کے ساتھ ساتھ پی پی پی کی قیادت نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ مسٹر بھٹو میں بے شمار خامیاں ہوں گی لیکن اُن پر مالی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں آسکا۔ اُن کا اسلام آباد یا لاہور میں کوئی مکان یا اہم پلاٹ نہ تھا… اور یہ آج کے پاکستان میں عملی طور پر ناقابل ِ یقین لگتا ہے۔ صرف یہی نہیں، اُنھوں نے نہ کسی بنک سے قرض لیا ، نہ معاف کرایا۔ اُن کا لباس بھی عام انسانوں جیسا ہوتا اور پھر وہ کچھ مشروبات کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ بہرحال وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔آج کی لوٹ مار کی سیاست کے مقابلے میں اُن پر اُس زمانے میں لگنے والے مخصوص الزامات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارے سابقہ آرمی جنرل بھی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ جنرل یحییٰ دل خوش کرنے کا سامان کرتے رہتے لیکن یہ بات ماننا پڑے گی کہ اُن کے کوئی غیر ملکی بنک اکاؤنٹ نہ تھے۔ اسی طرح جنرل گل حسن ، جو آرمی چیف رہے، کا اپنا کوئی مکان نہ تھا اور اُنھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام پنڈی کلب میں پورے کیے۔ مسٹر جسٹس کارنیلس فلیٹی کے ایک کمرے میں ہی مقیم رہے(اے تبدیل ہوتے ہوئے پاکستان ، ٹھہر جا، ہم اگر پرانا پاکستان ہی واپس لے آئیں تو بڑی بات ہے)۔2008 کے انتخابات بھی تاریخی ڈراموں سے تہی داماں نہ تھے۔ ایک طاقتور فوجی حکمران نظام کو اپنی گرفت میں لئے ہوا تھا لیکن اُن کی نظروں کے سامنے اُن کے زیادہ تر حامیوں کو شکست ہو گئی جبکہ جس شخص (نواز شریف ) کو جلاوطن کردیا تھا، قومی سیاست کے کینوس پر اُس کا واضح نقش ابھرنے لگا۔ یہ بھی ایک تاریخی عمل تھا۔تاہم اُن انتخابات کے نتیجے میں بننے والی زرداری حکومت نے جو کارکردگی دکھائی وہ بھی ”تاریخی “ ہی تھی۔
آج جب کہ شریف برادران کامیابی کا تاج پہن چکے ہیں، جہاں اُن کی خوبیوں کے گن گائے جارہے ہیں، وہیں اُن کو مفت میں مشاورت بھی دی جارہی ہے ۔ اخبارات کے کالم نہایت سنجیدگی سے ملکی مسائل کا نہایت اشک آور تجزیہ کرتے ہوئے دل کے تاروں کو چھو لینے والی مخلص اور تیر بہدف نصیحتوں کے انبار لگارہے ہیں۔ اگر ہیڈلائن پر نظر پڑے تو انسان سر تھام کر بیٹھ جائے اور اگر اگلا صفحہ پلٹیں تو پھر وہی اتائی ماہرین کی حکمت کی طرح معاشی حکمت ِ عملی کے نسخے۔ جوش و ولولہ اس قدر ہے کہ جیسا قوم کو کوئی مہاتیر محمد یا اردگان مل گیا ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ یہ ”وقت ِ دعا ہے“ ۔ امیدہے کہ ملک و قوم کی خاطر اس مرتبہ حماقتوں سے گریز کیا جائے گا ۔اگر کی گئی ایک حماقت ، یو ٹیوب پر پابندی، کا ازالہ ہوجائے تو حکومت پر عوام کا اعتماد بڑھ جائے گا کہ وہ واقعی کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ مسئلہ صرف ایک ویب سائٹ کا نہیں ہے ، بات یہ ہے کہ دنیائے اسلام کی اس واحد ایٹمی قوت نے خود کو دنیا کی نظروں میں مذاق کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ دنیا کے دوردراز خطوں میں بھی اگر کوئی واقعہ پیش آئے تو ہم اپنے اُوپر سنگ و آہن کی بارش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے کسی کا تو ایک گلاس تک نہیں ٹوٹتا ، ہمارا اپنا وجود ہی زخمی ہوجاتا ہے۔ جبکہ لوگ اصل واقعہ کو بھول بھی جاتے ہیں، ہم پابندیوں کے ذریعے اپنے زخم ہرے رکھتے ہیں۔ جب کوئی قوم بدحواسی کا اس قدر مظاہرہ کرتی ہو، تو کیا اُس سے یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ معاشی میدان میں انقلابی تبدیلی برپا کر ے گی؟
ہمارے کلچر میں کچھ نہ کچھ خرابی ضرور ہے۔ بجلی کا بحران ایک ٹھوس مسئلہ ہے، لیکن ایسے ٹھوس مسائل درست تدبیر اور مہارت سے حل ہو سکتے ہیں۔ جرمنی اور جاپان نے جنگ ِ عظیم کی مہیب تباہ کاریوں کے بعد اپنا انفرااسٹرکچر معجزانہ طور پر تعمیر کر لیا ، لیکن ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ ہم جدید دنیا میں پائی جانے والی معقولیت سے اجتناب کرتے ہیں۔ یوٹیوب پر پابندی اسی خرابی کی ایک علامتی شکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی کا بحران راتوں رات نہیں حل ہوگاکیونکہ پاور پلانٹ لگانے میں رقم کے ساتھ ساتھ وقت بھی لگتا ہے، چنانچہ ہمیں صبر کرنا ہوگا، لیکن جو کام آسانی سے ہو سکتے ہیں ،اُن میں ناکامی کا کیا جواز ہے؟مثال کے طور پر پلاسٹک بیگ کی وجہ سے ہماری آبی گزرگاہیں بند ہورہی ہیں، زرخیز میدان بنجر ہورہے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سابق سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ جب میں پلاسٹک بیگ جیسی اشیاکے بارے میں لکھتا ہوں تو میرا انداز نرم ہوتا ہے۔ اب خدا کے لئے یہ تو بتائیں کہ جب ہم پلاسٹک بیگ جیسے مسئلے سے نہیں نمٹ سکتے تو ہم کون سا نیا آسمان تعمیرکرنا چاہتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ فوج پہلے اپنے اسپتالوں اور پھر اپنی سی ایس ڈی شاپس میں ان کا استعمال ممنوع قرار دے۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے اس سے شرم محسوس کریں اور اس اقدام کی پیروی کریں۔ خدا کے لئے کاشغر ، یااس سے بھی پرے ریلوے لائن بچھانے کی باتیں فی الحال نہ کریں کیونکہ ابھی ہمارے ہاں بہت سے معاملات بگڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا ریلوے کا نظام تقسیم کے وقت ملنے والا سب سے بہترین اثاثہ تھا، لیکن اس کے بعد ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟1970 تک ہمارے پاس سفر کے لئے ریلوے سے بہتر کوئی اور چیز نہ تھی لیکن مارشل لا کے دور کی تاریکی نے اسے بھی زنگ آلود کر دیا۔ میرے شہر چکوال میں کیا حماقت ہوئی، کہ جب موٹر وے تعمیر کی جانے لگی تو ریلوے لائن کو اکھاڑ دیا گیا۔ ریلوے کی زمین پر بھی قبضہ ہو گیا۔ چنانچہ کوئی بھی بلٹ ٹرین چلانے سے پہلے کیا اس خرابی کاتدارک بھی ہو جانا چاہئے؟
پس ِ تحریر: راجہ پرویز اشرف نے ایک اچھا کام کیا تھاکہ اُنھوں نے چکوال سے مندرہ تک سڑک کی توسیع کا حکم دیا تھا۔ وہ کام بہت تیزی سے شروع ہوا لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے رکوا دیا۔ اس وقت یہ سڑک موت کا کنواں بن چکی ہے کیونکہ دونوں طرف سے سڑک گہری کھودی ہوئی ہے اور ہلکی سی غلطی سے انسان کبھی غلطی کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ کیا فاضل جج صاحبان اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے سڑک کی تعمیر کا حکم دیں گے ؟
تازہ ترین