• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک خط مجھے موصول ہوا ہے جو میرے نزدیک انتہائی اہم ہے، بلاتبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
محترم المقام جناب عطاء الحق قاسمی صاحب!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ بر کاتہ
امید ہے کہ صحت کی سلامتی کے ساتھ میدان عمل میں مصروف ہوں گے۔ لگ بھگ نو ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے ہماری ایک مختصر سی ملاقات کو جو کہ گزشتہ سال آپ سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے دہلی جاتے اور واپسی پر ایئر پورٹ پر ہوئی تھی، چند گھنٹوں کی اس ملاقات میں میری اور میرے دوست وقاص کی زیادہ سے زیادہ یہی کوشش تھی کہ آپ سے زیادہ باتیں سنی جائیں اور کچھ ضروری سنائی بھی جائیں مگر وقت نے ساتھ نہ دیا اور یوں یہ مختصر سی خوبصورت ملاقات اختتام پذیر ہوئی جس میں آپ نے زبانی خط و کتابت کا پتہ تو بتایا تھا کہ شومئی قسمت کہ پوری طرح ذہن نشین نہیں رہا جس کی وجہ سے رابطہ نہ ہو سکا، بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جس نے ایک دفعہ پھر آپ سے رابطہ بحال کروایا اور آج یہ گزارشات اس امید کے ساتھ کر رہا کہ اپنی گوناگوں مصروفیات سے فرصت کے چند لمحے نکال کر ضرور پڑھیں گے۔ پاکستان کے قومی میڈیا نے جو سلوک کشمیریوں بالخصوص آزاد کشمیر کے اندرونی معاملات کے ساتھ روا رکھا ہے اسے اچھا یا نیک کسی صورت نہیں کہا جا سکتا، نہ تو قومی اخبارات کے ایڈیشنز میں ہماری کوئی خبر لگتی ہے اور نہ ہی جنگ جیسے بڑے اخبار میں کوئی ایک ایسا کالم نگار موجود ہے جو ان معاملات پر کھل کر اظہار خیال کر سکے۔ بڑی ریٹنگ والے ٹی چینلز کی سکرینوں پر بھی ہم غائب ہیں، اب آپ تک پہنچ ہوئی ہے تو آج ساری باتیں کرنے دیجئے۔ امید ہے کہ آپ کو پسند نہیں آئیں گی کیونکہ میں خود بھی انہیں اچھا نہیں سمجھتا مگر اس امید کے ساتھ کہ گستاخی کو معاف کرتے ہوئے شفقت فرمائیں گے کیونکہ یہ میری اور آپ کی ذات کا معاملہ نہیں بلکہ ہمارے ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے اور آزاد کشمیر ابھی پاکستان کا حصہ نہیں بنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہاں کے لوگوں نے رائے شماری کے بعد اپنا فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا ہندوستان کے ساتھ!
پاکستان میں جمہوری طور پر پہلی دفعہ پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ بخیروخوبی انجام ہوا چاہتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتیں اس نظام کی بھرپور حمایت کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہیں۔ 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد مرکز میں 1997ء کے بعدایک مضبوط جمہوری حکومت بننے جا رہی ہے، جمہوریت کا حسن دیکھئے کہ تمام سرگرم اور فعال سیاسی جماعتوں کو پاکستان میں کہیں نہ کہیں عوامی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ آزاد میڈیا، غیر جانبدار عدلیہ، فعال سول سوسائٹی کی موجودگی میں اب بلامبالغہ طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے اگلے پانچ سالوں میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف میں عوامی خدمت کا مقابلہ ہو گا جو جماعت اپنے دستیاب تمام وسائل کا جس بہترین طریقے سے عوامی خدمت، کرپشن کے خاتمے، گڈگورننس کے قیام، ملکی و علاقائی ترقی و استحکام کے لئے استعمال کرے گی، وہی اگلی باری کی حقدار ٹھہرے گی۔ پاکستان کے اندر گزشتہ پانچ سالوں کے دوران تمام سیاسی قوتوں کی فہم و فراست اور جمہوریت دوستی کی بدولت آئینی و انتظامی محاذ پر نمایاں تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں جہاں حکومتی تبدیلی کو پاکستانی عوام خوشی سے محسوس کر رہے ہیں، وہیں آزاد کشمیر کے لوگ بھی ترسی نگاہوں سے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید اب ان کے دن بھی پھرنے والے ہیں۔ آزاد کشمیر کا علاقہ آئینی طور پر نہ سہی مگر عملاً پاکستان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کی اپنی قانون ساز اسمبلی، صدر، وزیراعظم، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ و کشمیر کونسل موجود ہیں جو کہ عبوری آئین 1974ء کے تحت کام کر رہی ہیں۔ ایکٹ کے تحت ایگزیکٹو اتھارٹی کشمیر کونسل کے پاس ہے جس کا وزیراعظم پاکستان بلحاظ عہدہ چیئرمین ہوتا ہے۔ آئین سازی، مالیاتی کنٹرول، ججز کی تعیناتی، ٹیکسوں کی وصولی سمیت اہم معاملات کشمیر کونسل کے پاس ہیں جس کا انچارج وزیر پاکستان کا وزیر امور کشمیر ہوتا ہے۔ وزارت امور کشمیر عملاً آزاد کشمیر کے اہم ترین معاملات کی مختار کل سمجھی جاتی ہے۔ ماضی میں ایک پنجسالہ دور کے اندر تعمیراتی کام ہوں یا اپنے من پسند لوگوں کی تعیناتیاں یا پھر سیاسی کارکنوں کی ایڈجسٹمنٹ ان تمام معاملات میں وزارت امور کشمیر کا کردار انتہائی بھیانک رہا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب تک کشمیر کا کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا، اس وقت تک پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کے درمیان نظریاتی رشتے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ یہاں گڈگورننس کے قیام اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے وزارت امور کشمیر اپنا بھرپور کردار ادا کرتی مگر شومئی قسمت ایسا نہ ہو سکا۔ مرکز میں جو بھی سیاسی جماعت حکومت میں آئی اس نے آزاد کشمیر کے اندر سیاسی نقب زنی کے لئے نہ صرف اس ادارے کو استعمال کیا بلکہ اس کے کارندوں نے اس کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے شیر مادر سمجھ کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کے نتیجہ میں آزاد کشمیر کے اندر عوام کے دلوں میں کونسل اور وزارت امور کشمیر کے خلاف نفرت بتدریج بڑھتی گئی۔ ایک مرتبہ تو نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ سابق وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور احمد وٹو کو سیاسی رہنماؤں کی جانب سے علی الاعلان د ھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے آزاد کشمیر کی سرزمین پر پاؤں رکھا تو ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی جس کے بعد کچھ معاملہ فہم لوگوں نے بیچ بچاؤ کروایا۔ سابق دور حکومت میں آزاد کشمیر کے ایک فرض شناس احتساب بیورو کے چیئرمین نے جب کشمیر کونسل کی کرپشن کی داستانیں بے نقاب کیں اور کارروائی کا آغاز کیا تو پلک جھپکتے میں ان کی جگہ نیا چیئرمین لگا دیا گیا اور معاملے کو اندرون خانہ دبا لیا گیا۔ آزاد کشمیر کے اندر سابقہ ادوار میں یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ وزارت امور کشمیر کی جانب سے آزاد کشمیر کے اندر غیر ضروری مداخلت نے نفرتوں کے بیج بونے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ اگر وزارت امور کشمیر گڈگورننس کے قیام، میرٹ کی بحالی، مالیاتی نظم و نسق قائم رکھنے، عوام کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، انصاف کی فراہمی، زلزلہ متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لٹکے معاملات کو یکسو کرنے، منگلا ڈیم متاثرین کے مسائل کے حل کے حوالے سے مداخلت کرتی جس کا شاید کوئی جواز بھی تھا تو صورت حال یہ نہ ہوتی ۔
یہاں تو ٹھیکوں سے کمیشن، آر پار تجارت میں فی ٹرک حصہ، کونسل کے ترقیاتی فنڈز کا وزیر امور کشمیر کے آبائی حلقے میں استعمال، کونسل میں ملازمتوں میں پچاس فیصدکوٹہ اپنے عزیز و اقارب کے لئے رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک معمولی کلرک کی تعیناتیوں کے لئے ہی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی رہیں۔ آزاد کشمیر کے اندرونی معاملات اور نئی نسل کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی کے خاتمے کے لئے کوئی اقدامات اٹھانے تو درکنار اس پر بات تک نہیں کی گئی۔ آج آزاد کشمیر میں ہر دس میں سے سات افراد کشمیر کونسل اور وزارت امور کشمیر کے کردار کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ آزاد کشمیر کے اندر شرح خواندگی پاکستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت زیادہ ہے، یہاں نوے فیصد سے زائد بچے سکول جا رہے ہیں، لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی تعلیمی میدان میں آگے آگے ہیں جنہیں میرٹ پر روز گار فراہم کرنے والا ادارہ پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل ہوتا ہے اور اب بھی ہے۔ جب ڈگری ہاتھ میں لئے نوجوان کو معاشرہ قبول نہیں کرتا تو پھر ذہنی دباؤ کے ساتھ ساتھ نفرت بھی بڑھتی ہے جس سے معاشرتی توازن بگڑتا ہے، بغاوت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہی صورتحال یہاں بھی ہے یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ آزاد کشمیر کے اس طرح کے معاملات نے حکومت پاکستان کے بارے میں کوئی مثبت تاثر نہیں چھوڑا جن کی بہتری کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں نے اسے مینڈیٹ دیا تھا۔ چالیس لاکھ کی آبادی والی دس اضلاع پر مشتمل یہ ر یاست عملی طور پر اسی ہزار سرکاری ملازمین اور چند مخصوص سیاسی اجارہ داروں کی ملکیت بن کر رہ گئی ہے۔ اشرافیہ کی نالائق اولادیں رشوت، سفارش، تعلقات کی بدولت اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہو رہی ہیں جس سے ریاستی مشنری کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ بااثر طبقے کے چلے کلے بھی سرکاری ملازمتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ محنت مزدوری کر کے اپنی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنا کر غریب والدین ان سے مزدوری کروانے پر مجبور ہیں۔ وزارت امور کشمیر اور کونسل کے کردار کو وائسرائے ہند اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے کردار سے تشبیہ دی جا رہی ہے جس پر یہاں کے سنجیدہ اور نظریاتی حلقے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ پاکستان کے قومی میڈیا نے ان تمام مسائل پر چپ سادھی ہوئی ہے۔ یہاں کے عوامی نوعیت کے اہم ترین معاملات پر چند منٹ اور چند سطریں لکھنے بولنے کی فرصت بھی کسی کو نہیں، پاکستان کا دفاعی حصار کہلانے والے علاقے کو بے یارومددگار کشمیر کونسل کے جوائنٹ سیکرٹری کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اوپر اس کے صدر فاروق حیدر کی جانب سے دلیرانہ اور جرأت مندانہ موقف کی بدولت عوام یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وزرت امور کشمیر، کشمیر کونسل کے کردار کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے اندر انتظامی خرابیوں کو بھی دور کیا جائے گا۔
اس سلسلہ میں تازہ ہوا کا پہلا جھونکا مسلم لیگ ن کا منشور تھا جس میں پہلی بار ان مسائل کے اوپر مفصل اور عوامی مطالبات وتوقعات کے عین مطابق حل طلب امور پر جامع منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ منشور کمیٹی کی سب کمیٹی کی چیئرپرسن ماروی میمن نے اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر بھر کے اہل علم و دانش سے بھی تجاویز حاصل کر کے جو منشور تشکیل دیا اسے یہاں کی ساری سیاسی جماعتوں نے نہ صرف سراہا بلکہ آزاد کشمیر بھر سے لاکھوں افراد جو کہ بسلسلہ روز گار پاکستان میں مقیم ہیں اور سیاسی کارکنوں نے پاکستان بھر میں مختلف حلقہ جات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت میں خود اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے بھرپور مہم چلائی اور اپنا ہرممکن کردار ادا کیا۔ اب جبکہ وزیراعظم نوازشریف پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکے ہیں تو اہل آزاد کشمیر ان سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ جہاں ایک طرف آپ وفاق کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں، پاکستان کی نظریاتی،اقتصادی، معاشی بنیادوں کو مضبوط بنانے کی مفصل منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہیں ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے اندر بھی پائی جانے والی کئی دہائیوں سے بے چینی کا خاتمہ کرتے ہوئے عوامی مطالبات کی روشنی میں اپنے منشور پر عملدرآمد کروائیں۔ بالخصوص وزارت امور کشمیر کسی کے سپرد کرنے سے پہلے اپنی پارٹی کی تنظیم کو اعتماد میں لیں جو کہ عوامی مسائل و مطالبات پر یقینی طور پر بہترین نظر رکھتی ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر بھی پاکستان کی ہی ذمہ داری ہے اور میری آپ جیسے صاحب علم و دانش سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ان تمام معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے کیونکہ یہ معاملات دوریاں اور غلط فہمیاں بڑھا رہے ہیں اور اگر ان پر توجہ نہ دی گئی تو پھر بعید از قیاس نہیں کہ حالات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔
والسلام…راجہ وسیم
سنٹرل پریس کلب مظفر آباد آزاد کشمیر پاکستان
تازہ ترین