• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرض کریں کہ آپ ایک اسٹیج پر کھڑے ہیں۔ دشمن آپ کی کنپٹی پر پستول رکھ دیتاہے ۔اب اگر آپ چیخیں مارتے ہوئے اسٹیج سے فرار ہونے کی کوشش کریں تو لوگ آپ کو کس نظر سے دیکھیں گے ؟وہ کہیں گے کہ بہت ہی بڑا کوئی بے وقوف انسان تھا۔ اسی طرح اس دنیا میں انسان کے ساتھ جو کچھ بھی پیش آرہا ہے، وہ ایک اسکرپٹ کے مطابق ہے۔ زندگی میں جس جس کردار سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔ جن ماں باپ کے گھر ہم پیدا ہوتے ہیں ،وہ بھی طے شدہ ہے۔ بہن بھائی، اساتذہ، ہم جماعت، بیوی بچّے، ایک ایک کردار اسکرپٹ کے مطابق اس میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کو مثبت یا منفی انداز میں متاثر کرتا ہے۔

ایک عورت اپنے شوہر سے تنگ آچکی ہے۔ ایک باپ اپنی اولاد سے تنگ آچکا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ ایک اسکرپٹ کے مطابق ہے ۔زندگی میں کوئی بھی چیز اتفاقیہ نہیں۔ انسان جب زندگی کی تلخ حقیقتوں سے تنگ آنے لگتا ہے تو عین اس وقت اگر وہ خود کو یہ یاد دلا دے کہ یہ سب کچھ اسکرپٹڈ ہے تو بدترین حالات میں بھی وہ پرسکون ہو سکتاہے۔ حضرت امام حسینؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

قرآ ن میں لکھا ہے کہ یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے۔ انسان کو اس کی پانچ حسیات سے دھوکہ دیا جارہا ہے۔ تلذذ رکھ دیا گیا ہے ۔جسم میں نروز رکھی گئی ہیں اور دماغ میں کیمیکلز خارج ہوتے ہیں۔ یوں انسان ان لذتوں کا نشئی بن جاتا ہے۔ یہ سب دھوکہ ہے۔ نہ تو انسان کی کوئی اولاد ہے اور نہ رشتے دار۔ خدا نے اپنی محبت کے سو حصوں میں سے ایک مخلوق کے دلوں پر نازل کر دیا ہے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے۔ ایسا اگر نہ کیا جا تا تو درندے اپنی اولاد کو چیر پھاڑ کر کھاجاتے اور اپنی نسل ختم کر لیتے۔ یہ محبت جب اٹھا لی جاتی ہے تو جانور اپنے بچوں کو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ حشر میں انسان بھی ایسا ہی کرے گا۔

اسی دھوکے کا ایک مظاہرہ روزانہ ہماری زندگیوں میں ہوتا ہے۔ ہم مختلف مناظر میں کھوئے ہوتے ہیں کہ اچانک معلو م ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ تو خواب تھا۔ اسی طرح ایک دن انسان کی آنکھ کھلے گی اور اسے معلوم ہوگا کہ دنیا کی یہ زندگی خواب تھی۔ زندگی کے سارے بنیادی فیصلے مقدر ہیں۔ مثلاً ہمارے ماں باپ کون ہوں گے ؟ انسان کی ذہنی صلاحیت جینز پر منحصر ہوتی ہے، جو کہ انہی ماں باپ سے آتے ہیں، جن کا انتخاب بچّے کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔رزق سارے کا سارا مقدر ہے۔نہ لکھا ہو تو سامنے پڑی خوراک آپ کھا نہیں سکتے۔ خدا فرماتا ہے: زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں‘ جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو۔ اس کے بعد وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے، وہ کہاں ٹھہرے گا۔جن راستوں سے گزر کر‘ جس جگہ ہم مستقل طور پر ٹھہرتے ہیں، وہ بھی پہلے سے درج ہے۔ خدا نے اپنے آپ کو مکمل طور پر حجاب میں رکھا ہوا ہے کہ ایمان جبر نہ ہو جائے؛ لہٰذا ہمیں ہر جگہ اپنی محنت، اپنی کوشش ہی نظر آتی ہے۔

انسان پریشان ہے کہ اس صدی کے اختتام تک دنیا کی آبادی 13 ارب تک جا پہنچے گی۔اس کے بعد کیا ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ جس خدا نے انسان کو میڈیکل سائنس کا تحفہ دیا، جس کی وجہ سے آبادی اس قدر بڑھی، اس نے آگے کی بھی منصوبہ بند ی کر رکھی ہے۔ بادی النظرمیں بہت بڑی جنگیں ہماری منتظر ہیں۔ فاسلز کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں تین لاکھ سال ہوئے ہیں، جب کہ ڈائنا سار 16کروڑ سال تک اس پر حکومت کرتے رہے۔ ماں باپ، شریکِ حیات اور اولاد کا انتخاب تو رہا ایک طرف، خدا یہ کہتاہے کہ تم چاہ بھی نہیں سکتے، اگر میں نہ چاہوں۔ ہماری تو خواہشات بھی اپنی نہیں۔

ماں باپ، رزق، ذہنی صلاحیت، سبھی کچھ اگر اس نے اپنے ہاتھ میں مرکوز کر رکھا ہے‘ تو پھر انسان کے بس میں کیا ہے؟ لگتا ایسا ہے کہ انسان کو مختلف صورتِ حال (Situations) میں سے گزارا جاتا ہے اور اس میں اسے اپنا منفی یا مثبت ردّ عمل دینے کی اجازت ہے۔ جذبات اور عقل کے درمیان ایک دائمی کشمکش میں فیصلہ انسان پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ عقل کا انتخاب کرے گا یا جذبات کا۔ جیسے ہی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتاہے توسب سے پہلے اگر کوئی چیز ردّعمل دیتی ہے تو وہ جذبات ہیں۔ علمی طور پر انسان جو چیزیں جانتا ہے کہ اس میں میرا نقصان ہے اور اس میں فائدہ، وہ اکثر اوقات اس کے کچھ کام نہیں آتیں۔ تقریباً ہمیشہ انسان جذباتی طور پر ردّعمل دیتا ہے ۔

عقل کے پاس بند دروازوں کی چابی ہے لیکن جب تک انسان عقل سے یہ چابی طلب نہ کرے تو وہ خاموش ہی رہتی ہے۔ استاد یہ کہتے ہیں کہ جب تک جذبات غالب رہتے ہیں، نازک سی عقل ان دیوئوں کے سامنے سہم کر خاموش بیٹھی رہتی ہے؛ حتیٰ کہ غصہ اتر جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ انسان ندامت محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ عقل کے پاس جاتا ہے۔ عقل اسے بتاتی ہے کہ معافی مانگ لو۔ یہاں ایک بار پھر جبلت مداخلت کرتی ہے۔ نفس اسے یہ بات بتاتا ہے کہ معافی مانگنا اس کی شان کے خلاف ہے۔ اگر وہ اس کی بات مان لیتا ہے تو نفس جیت جاتا ہے۔ اگر وہ اسے رد کر کے معافی مانگ لے تو عقل جیت جاتی ہے۔ شیطان کو یہ بہت ناگوار گزرتا ہے کہ یہی چیز آدم کو شیطان پہ فضیلت دیتی ہے۔ انسان کو بہرحال خود کو یہ یاد دلاتے رہنا چاہئے کہ دنیا کی زندگی اسکرپٹڈ ہے۔

تازہ ترین