• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غلام علاقوں ،قبیلوں اور بغاوت پر آمادہ لوگوں کواپنے قابو میں رکھنے کیلئے کرپشن کا ہتھیاربرسوں قبل بروئے کار لایاگیا، وقت کے ساتھ ساتھ اس کے رنگ وآہنگ بدلتے رہے ہیں۔برصغیر پر 331 برس حکمرانی کرنے والےمغل مقامی نہیں تھے،اُن کے زیر نگیں موجودہ بھارت ،بنگلہ دیش ،پاکستان اور افغانستان میں سے کسی علاقےسے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔1526میں مغل سلطنت کی بنیادرکھنے والے ظہیرالدین بابر صرف 400افرادکے ساتھ افغانستان آئے تھےاور زرخرید افغانوں کی مدد سے ہی اُنہوں نے افغان لودھی خاندان کے آخری حکمران سلطان ابراہیم لودھی کو پانی پت میں شکست دیکر ہندوستان میں اپنی حکومت کی بنیادرکھی تھی۔ بابر اور ان کے بعد ان کے جانشینوں کے آلہ کار دو طبقات بالخصوص بنے جن میں بعض دین فروش اور وطن فروش اہلِ دستارشامل تھے۔انہی کو خرید کر مغل ایمپائر اُس وقت تک کھڑی رہی جب انگریز نے آکراس خاندان کو قصہ پارینہ نہیں بنایا۔اس دوران شیرشاہ سوری جیسے محب وطن سرفروش بھی تاریخ نے دیکھے ،جنہوں نے خلعت،دستاراورمال ودولت پر اپنے مقصدکو ترجیح دی،تونہ صرف بابر کے بیٹے ہمایوں کو شکست فاش دی بلکہ اُسے برصغیرکی حدود سے نکال باہر کیااور وہ ایران میں پناہ گزین ہوا۔تاہم وہ غدار جوحرام کا مزہ لےچکے تھے وہ بے چین رہے اور بالآخر کام کر دکھایا۔کہنا یہاں یہ ہے کہ انسانی سرشت وجبلت میں پنہاں بعض وہ کمزوریاں ہوتی ہیں جو بڑے بڑوں کیلئے نکیل بن جاتی ہیں۔مغل کاآزمودہ نسخہ بعدازاں انگریز نےاپنایا اور وطن فروشوںکے ذریعےہندوستان پر حکومت کرتے رہے۔ آزادی کے بعد جہاں بھارت میں اقتدارتحریک آزادی کے رہنمائوںکے ہاتھ آیا ،تو انہوں نے فوری طور پر تین سوسے زائد ریاستیں ختم کرکے جہاں نوابین کا خاتمہ کیا وہاں جاگیردارانہ سماج کی نمود کوبھی روکا،رفتہ رفتہ وہاں جمہوریت اس طرح مستحکم ہوئی کہ وہاں ایک دن کیلئے بھی کسی کو مارشل لالگانے کی جرات نہ ہوسکی۔ پاکستان آغاز ہی سے سول بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے نرغے میںگیا،یہی نہیں بلکہ جہاں پاکستان9سال سرزمین بے آئین رہا وہاں آزادی کےصرف دس سال بعد ملک پر مارشل لا مسلط کرتے ہوئے آمرانہ دور کی شروعات کی گئیں، پاکستان میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اس وجہ سے اس اکثریت کو اسلام کے نام پر اپنےساتھ ملانے کیلئے بعدازاں بعض مذہبی جماعتیں ان آمروں کی حلیف بنیں۔اسی طرح وہ مختلف عناصر بھی جو بدیسی مغلوں اور انگریزوں کے کام آتے رہے، وہ نئے انداز سے پاکستان میں جمہوریت کیخلاف آمروں کے کاسہ لیس بنے۔یوں ملک میں جمہوریت کے نام پر فراڈ اور مختلف دیگر نظاموں کے تجربات ہوتے رہے ،نتیجہ غربت ،بے روزگاری اورسامراجی، مالیاتی اداروںکی کاسہ لیسی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔بنگلہ دیش چونکہ 24سال تک پاکستان کا حصہ رہاہے اس لئے اُس کے رہنمائوں کو ملک وملت کش ان تمام عناصر کی وارداتوںکا بہ خوبی علم تھااس لئے اُس نے پاکستان سے علیحدہ ہونےکے بعد انتہائی نامساعد حالات میں جو سفرشروع کیا تھا وہ آج ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے،گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی (50سالہ )کاجشن مناتے ہوئے بنگلہ دیش نے بڑے فخرسے ترقی کے اعدادوشمار اپنے عوام اور دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے بتایاکہ کس طرح بنگلہ دیش آج ہر شعبےمیں پاکستان سے ترقی میں سبقت لئے ہوئے ہے۔اُن کے دعوے کی تصدیق پوری دنیا کررہی ہے،عالمی اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کو بنگلہ دیش کی ترقی تک پہنچنےکیلئے دس سال درکارہیں،ظاہرہےاس دوران بنگلہ دیش کہاں پہنچ گیاہوگا۔کہنایہ ہے کہ پاکستان میں جہاں موقع پرست طبقات و آمروں نےملک کو دیمک کی طرح چاٹا،وہاں اُنہوں نے سیاست کو بھی کرپشن زدہ کردیا۔لے پالک جماعتیں بنائی گئیں، پیسہ سیاست پر اثرانداز ہونے لگا،اس صورتحا ل میں حقیقی جماعتیں بھی خود کو اس گند سے دور نہ رکھ سکیں،یوں مملکت کے اصل اختیارمند وں کے ہاتھ ایسی کمزوری ہاتھ آگئی کہ وہ جب چاہتے ہیں ایسے کرپٹ سیاستدانوں کو زیرکردیتے ہیں۔ جمہوریت کیلئے طویل جدوجہد کرنے والے جہاندیدہ سیاستدان ولی خان نے کہا تھاکہ جب تک پنجاب کو جمہوری قیادت نہیں ملتی ملک میں جمہوریت کے نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا،اُن کا کہناتھا کہ چھوٹےصوبوںکی جدوجہد اس لئے ثمر بار نہیں ٹھہرتی کہ پنجاب مختلف الزامات لگاکر اُن کو دیوار سے لگادیتاہے،جب پنجاب کو احساس ہوگاکہ ملک کا مستقبل جمہوریت ہی سے وابستہ ہے،تب کہیں جاکر کامیابی کے امکانات پیداہوں گے۔آج پنجاب کی قیادت عوامی حمایت سے تاریخی کردار اداکرنے کیلئے میدان میں ہے، اس کی راہ میں مگر وہی آلودہ سیاست سدراہ ہے جس کی آبیاری میں مسلم لیگ ن کا بھی کچھ کم حصہ نہیں۔اب جہاں کرپٹ سیاستدان مسئلہ ہیں تووہاں ن لیگ کے حلیف وہ لوگ بھی ہیں جو مذہب کے نام پر سیاست کواستعمال کرتے رہے ہیں،لہٰذاایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاکل کو بننے والی نئی حکومت کیلئے یہ عناصر اُس طرح کادرد سرنہیں بنیں گے جس طرح وہ ہر دور میں بنتے رہتے ہیں؟

تازہ ترین