• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہولناک فسادات ہوں، عبادت گاہوں کی دیواریں تازہ لہو کے چھینٹوں سے رنگین ہوں، مصروف شاہراہوں پر مذہبی پیشوا دن دہاڑے مارے جائیں، چند روز کے لئے ذرائع ابلاغ میں سیاسی رہنماؤں، مذہبی پیشواؤں اور دانشوروں کو رواداری کی اہمیت پہ اپنے زریں خیالات ارزاں کرنے کا اچھا موقع نصیب ہوتا ہے۔ رواداری کا یہ شجر سایہ دار بھی عجیب برگ ِمظلوم ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں اس کی جڑ کاٹ ڈالی اور اب ہجومِ طفلاں کی طرح اس کی خشک ٹہنیاں ہاتھوں میں اٹھائے گلیوں میں پھرتے ہیں۔ روا داری نہ کوئی کتابی اصطلاح ہے اور نہ خطابت کی آزمودہ ترکیب جسے مجمع گرمانے کی غرض سے گاہے گاہے بلند کیا جائے۔ رواداری ایک طرزحیات ہے جس کے فکری پہلو عمیق ہیں، سیاسی ڈانڈے دوررس ہیں اور اس کا معاشرتی اطلاق ٹھوس عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔
رواداری کا لغوی مفہوم ہے دوسرے انسانوں کے ہم سے مختلف عقائد، زاویہ ہائے نگاہ اور افکار کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر برداشت کا رویہ پیدا کرنا۔ اس میں پہلا نکتہ تو یہی ہے کہ سب شہریوں کو عقیدے نیز فکر و نظر کی یکساں اور مکمل آزادی دئیے بغیر رواداری کا تصور ہی ناقابل عمل ہے۔ مذہبی و فکری آزادی اور رواداری ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر ریاست کسی ایک عقیدے یا فکر کے پیروکاروں کو دوسروں پر ترجیح دے تو مذہبی آزادی مجروح ہوتی ہے اور معاشرہ رواداری سے محروم ہوجاتا ہے۔ اگر ریاست رتبے، استحقاق یا مذہبی عقائد پر عمل کی آزادی کے ضمن میں مختلف مذہبی گروہوں میں امتیازی یا ترجیحی سلوک کرے تو مذہبی آزادی کا تصور ہی بے معنی ہوجاتاہے۔
جدید ریاست نہ تو جغرافیائی اعتبار سے قدیم ریاستی نمونے کی طرح غیر متعین ہے اور نہ آج کی دُنیا میں کسی فرد یا گروہ کی یہ خواہش قابلِ عمل ہے کہ تمام اِنسانوں کو طاقت کے بل پر ایک ہی طرح کے عقائد یا افکار کا پابند کیا جائے۔ تاریخی اعتبار سے مذہبی رواداری کا تصور اٹھارہویں صدی کی تحریکِ روشن خیالی سے پیدا ہوا ہے۔ اِس تحریک کے نتیجے میں انسانوں کے اجتماعی رہن سہن اور معاشرتی کاوشوں کا مرکزی مقصد خود انسان کی فلاح قرار پائی ہے۔ نیز یہ کہ ریاست کا بنیادی فرض رنگ و نسل، عقیدے، جنس یا خیالات کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر اپنے تمام شہریوں کے تحفظ اور ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ ان اصولوں کی بنیاد ہی پر جدید ریاست میں ایسے قابلِ عمل اجتماعی نظام کا تصور کیا جاسکتا ہے جس میں تمام شہری عقائد، نقطہٴ نظر اور رہن سہن کے گوناگوں اختلافات کے باوجود اپنے اجتماعی مفاد کے لئے کام کر سکتے ہیں۔مزید برآں اپنی جان و مال کو محفوظ سمجھتے ہوئے دیگر شہریوں کے ساتھ پُر امن اختلافِ رائے کی بنیاد پر مکالمہ استوار کرسکتے ہیں۔
رواداری کے اِس فکری تناظر کا ایک لازمی تقاضا جمہوریت کا قیام اور استحکام ہے۔ جمہوریت دراصل مختلف النوع اختلافات، مفادات اور اقدار کو تسلیم کرکے مسائل کا پُرامن حل تلاش کرنے کا طریقہٴ کار ہے۔ جمہوری طرزِ حکومت کے بغیر رواداری کی گردان محض لفاظی ہے۔ دوسری طرف معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ موجود ہو تو جمہوریت کے بارے میں باتیں تو کی جاسکتی ہیں اِسے اجتماعی معاشرت کے عمرانی سمجھوتے کی جائز بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ معاشرے میں رواداری کے فروغ کا تقاضا ہے کہ ریاست شہریوں کے عقائد اور خیالات میں مداخلت سے مکمل اجتناب کرے۔ عقائد اور افکار کے ضمن میں ریاست کا واحد فریضہ ہر شہری کے لئے یکساں مذہبی اور فکری آزادی کو یقینی بناناہے۔ روادار ریاست میں قوانین کی بنیاد شہریت پر رکھی جاتی ہے، کسی خاص نظام عقائد پر نہیں۔ رُتبے، معاشی مواقع، سیاسی شرکت اور سماجی استحقاق کے اعتبار سے کسی فرقے یا گروہ سے امتیازی سلوک کی گنجائش نہیں ہوتی خواہ کوئی گروہ عددی اعتبار سے بھاری اکثریت رکھتا ہو یا چھوٹی سی اقلیت ہو۔ ریاست کو یہ حق نہیں کہ اپنے شہریوں کے کسی عقیدے پر غلط یا صحیح کا فتویٰ صادرکرے۔ انسانی تاریخ میں آج تک رواداری کے اِن بنیادی اُصولوں سے انحراف کرنے والی کوئی ایسی ریاست نہیں گزری جو تصادم، تشدد، تفرقے، انحطاط اور انتشار جیسے انجام سے دو چار نہ ہوئی ہو۔ اِس میں یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ جدید دور میں ہر مذہبی گروہ دو طبقات میں منقسم ہے۔ ایک گروہ اپنے عقائد کی لفظی تشریح کو اہمیت دیتا ہے جبکہ دوسرا اپنے عقائد کی بنیادی اقدار پر عمل پیرا ہونے کو کافی سمجھتا ہے۔ چنانچہ کسی ریاست کے تمام شہری ایک ہی مذہب کے پیرو کار ہی کیوں نہ ہوں، اداراتی سطح پر رواداری کی ضمانت اور سماجی سطح پر رواداری کو فروغ دئیے بغیر اِن دونوں گروہوں میں تصادم ناگزیر ہوجاتا ہے۔
تاریخی طور پر انسانی معاشرے میں عقیدے کے ضمن میں غلوکا تجربہ کبھی کامیاب نہیں رہا۔آج کی دُنیا میں تصادم اور قتل و غارت کے خوفناک ہتھیاروں کی موجودگی میں ایسا رویہ اور بھی زیادہ ناقابلِ قبول ہے۔جدید دُنیا کی بنیاد انسانوں میں نکتہ ہائے اشتراک کی نشان دہی، سماجی اقدار و معیارات میں ناگزیر ارتقاء، علوم و فنون کے آفاق میں وسعت، پُرامن اجتماعی مکالمہ اور معیار زندگی میں مسلسل بہتری پر ہے۔ رواداری کو بنیادی اجتماعی قدر تسلیم کئے بغیر اِن میں سے کسی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کیونکہ عد م برداشت کا نتیجہ صرف تصادم، اختلاف جمود اور تشدد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ سوال اُٹھایاجاتا ہے کہ کسی عقیدے کے پیرو کاروں کیلئے خود سے مختلف عقائد اور متصادم اقدار کا احترام کرنا کیونکر ممکن ہو گا۔ دراصل یہاں مطالبہ دوسرے نظام ہائے عقائد کے احترام کا نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کے اِس حق کے احترام کاہے کہ وہ ہم سے مختلف نظام عقائد او ر اقدار پر یقین رکھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے حق اختلاف کا احترام کرنے سے عملی طور پر کسی انسان کے اپنے حقِ عقیدہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اِس کی ایک عملی دلیل یہ ہے کہ ہر انسان اپنے لئے مذہبی اور فکری آزادی کا خواہاں ہے۔ عملی طور پر دوسرے انسانوں کا یہی حق تسلیم کئے بغیر یہ خواہش کس طرح پوری ہوسکتی ہے؟ جدید علمی روایت میں قطعیت پر مبنی رعونت کی بجائے ایسی انکساری کو مقدم سمجھا جاتا ہے جو اپنی فکری تحدید اور غلطی کے امکان کا اعتراف کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہی علمی انکساری درس گاہوں سے باہر گلی کوچوں میں اور کتاب سے باہر عملی رویوں میں بھی جگہ پاسکے تو شاید کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انسانیت کے دامن سے خون کے وہ دھبے پھیکے پڑ سکیں جنہوں نے صدیوں سے انسانی تاریخ کو داغدار اور انسانی معاشرے کو اذیت اور محرومی سے دو چار کررکھا ہے۔
تازہ ترین