• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے ذہن میں ایک منظر سجا کر دیکھیں۔ کوئی عدالت لگی ہے، انتہائی باوقار۔ سامنے جج صاحبان کی ایک قطار ہے، حاضرین دم بہ خود ہیں، کسی حد تک دہشت کا سماں ہے، کٹہرے میں ایک سیاستدان سر جھکائے کھڑا ہے، وہ رقّت آمیز لہجے میں اپنے ان جرائم کا اعتراف کر رہا ہے جو جمہوریت کے خلاف اس سے سرزد ہوئے۔ اس کے لئے یہ سب کچھ کہہ دینے اور قبول کرنے کی گھڑی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اگر اس نے پورا سچ بیان نہیں کیا تو اسے معافی نہیں ملے گی۔ اگر آپ ایسے کسی منظر کا تصوّر کر رہے ہیں تو آپ کو ایک مخصوص شخصیت یا چہرے کی ضرورت ہو گی۔ مشکل یہ ہے کہ ایسے کرداروں کی ایک بھیڑ لگی ہے۔ چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ کٹہرے میں کھڑے سیاستدان کا نام پرویز الٰہی ہے، جنہوں نے وردی میں کسی کو کئی بار صدر بنوانے کے عزم کا اظہار کیا تھا یا شاید آپ کا اپنا کوئی پسندیدہ ملزم ہو۔ آپ شاید یہ کہیں کہ ایک ایسے وقت جب تاریخ بن رہی ہے اور نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن گئے ہیں، اس قسم کی کسی ڈرامائی منظرکشی کی کیا ضرورت ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے اور اس موقع پر نومنتخب قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب سے قبل جو تقاریر کی گئیں وہ بہت اہم ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر مجھے ہفتے میں ایک دفعہ ہی کچھ کہنے کی مہلت ملتی ہے تو میں آج ان خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو محمود خان اچکزئی کے اس بیان سے جڑے ہوئے ہیں جو انہوں نے قومی اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر کی شکل میں دیا۔ میں سچ بولنے کی بات کر رہا تھا۔ محمود خان اچکزئی نے یہ سچ بولا کہ تمام ممبران نے آئین کے دفاع اور اسے برقرار رکھنے کا حلف لیا ہے۔ یہ تو وہ ہر بار لیتے رہے ہیں اور پھر بھی کئی بار آئین کو پامال کیا گیا، اسے توڑا گیا۔ سب سے کڑوا سچ وہ یہ بولے کہ ایوان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے ماضی میں جرنیلوں کا ساتھ دیا۔ آپ نے شاید یہ کارروائی براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے ہوئے دیکھی ہو۔ وہ جو میں کہہ رہا تھا کہ آپ اپنے ذہن میں ایک سیاستدان کو کٹہرے میں کھڑے ہوئے دیکھیں تو وہاں ایسے کئی چہرے دکھائی دے رہے تھے۔
اور ہاں…یہ جو میں عدالت کی تصویر کھینچ رہا تھا تو اس کا بھی ایک حوالہ ہے اور ہمارے کئی مبصر پاکستان کے لئے اس طریق عمل کی ضرورت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں جب 1994ء میں جمہوریت کا آغاز ہوا اور سیاہ فام اکثریت نے اقتدار حاصل کیا تو ایک انتہائی دشوار مسئلہ ان کے لئے یہ تھا کہ ان سفید فام سابق حکمرانوں کو کیا سزا دی جائے جنہوں نے برسوں اکثریت پر ظلم ڈھایا۔ آزادی کی جدوجہد کرنے والے مجاہدوں کو نہ صرف قید میں رکھا بلکہ ان پر بہیمانہ تشدد کر کے انہیں ہلاک بھی کیا۔ جبر کی ایک لرزہ خیز داستان تاریخ کا حصّہ بن چکی تھی۔ بظاہر یہ کتنی آسان بات تھی کہ ظلم کرنے والوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کو پکڑ کر لٹکا دیا جائے۔ انتقام کا جذبہ بھی تو آخر انسان کی فطرت میں ہے۔ یہ بھی سوچیے کہ انصاف بھی ایک طرح کا انتقام ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پورا نظام ڈھے جاتا پھر نئی حکومت کو چلانے کیلئے سفید فام آبادی کے ماہرین کی ضرورت تھی اور ان سب کو اپنا دشمن بنانا خودکشی کے مترادف تھا تو پھر جنوبی افریقہ کے نئے حکمرانوں نے کیا کیا؟ یہاں میرا بہت جی چاہ رہا ہے کہ نیلسن منڈیلا کا ذکر کروں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بیسویں صدی کے آخری سالوں میں ایک تاریک براعظم میں قیادت کا ایک ایسا سورج طلوع ہوا کہ جس کی کوئی اور مثال اس صدی میں نہیں ملتی۔ تقریباً 27 سال قید میں رہنے کے بعد منڈیلا نے اپنے حریفوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا اور دنیا نے ایک نئے انداز کا انقلاب دیکھا کہ خون خرابے کے بغیر ایک محکوم اکثریت کو اقتدار حاصل ہو گیا، یہی جمہوریت کا اعجاز ہے۔ بہرحال میں جمہوریت کے مجرموں کے احتساب کی بات کر رہا تھا۔ جنوبی افریقہ میں بشپ ٹوٹو کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم ہوا۔ ”ٹرتھ اینڈ ری کنسلٹینسی“ کا، اسے آپ سچّائی اور مصالحت کا کمیشن کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک نیا اور ایجادانہ تصوّر تھا کہ مجرم آئیں، پوری سچّائی سے اپنے جرائم کا اقرار کریں اور معافی کی درخواست کریں جو اکثر قبول کر لی جاتی تھی۔ کمیشن کی کارروائی ایک عدالت کی مانند کی جاتی تھی۔ ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ جنہوں نے ظلم برداشت کیا اور جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی وہ اپنی گواہی دیں، اپنی کہانیاں سنائیں۔ کمیشن نے اپنے کام کا آغاز 1996ء میں کیا۔ جنوبی افریقہ میں جمہوریت کے قیام کے عمل میں اس کمیشن کا ایک بڑا کردار تھا۔ جس فلسفے پر یہ قائم ہوا وہ یہ تھا کہ ہم معاف تو کر سکتے ہیں لیکن ہم بھول نہیں سکتے۔ یہی وجہ تھی کہ جس پر جو گزری اس نے بیان کیا۔
میں 1996ء میں ایک صحافتی کانفرنس کیلئے جنوبی افریقہ گیا تھا اور یہ کانفرنس کیپ ٹاؤن میں منعقد ہوئی تھی کہ جہاں کمیشن قائم ہوا تھا۔ ایک اجلاس میں خود بشپ ٹوٹو نے آ کر اس کے کام کی تفصیل بتائی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ لوگ جرم کرنے والے بھی اور سہنے والے بھی جذبات کی شدّت سے بے قابو ہو کر رو پڑے، ہچکیاں بندھ گئیں، کارروائی کو کچھ دیر کے لئے روکنا پڑا۔ جنوبی افریقہ نسلی امتیاز کے خون آلود، تاریک دور سے ایسا نکلا کہ نسلی تشدد کا خطرہ ٹل گیا۔ گو مجرمانہ تشدد اور دوسرے مسائل اب بھی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔چلئے اب جنوبی افریقہ سے پاکستان واپس آتے ہیں۔ میں نے محمود خان اچکزئی کے بیان کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب تمام ممبران یہ عہد کریں کہ اگر آئندہ آئین کی خلاف ورزی کی گئی اور اسے توڑا گیا تو اسمبلی کا کوئی بھی رکن اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ اس خطرے کا اظہار بھی انہوں نے کیا کہ اگر اسمبلی نے اگلے پانچ سال میں نتائج نہ دیئے تو ملک میں نہ جمہوریت رہے گی اور نہ آئین رہے گا۔ اس تقریر کے بعد دوسرے کئی اہم سیاسی رہنماؤں نے اس کی پرزور تائید کی۔ ایک صورت میں یہ ان کا قوم سے وعدہ تھا کہ وہ آئین کی پاسداری کریں گے۔ البتہ جس قسم کے اقرار جرم کو لازم سمجھا جانا چاہئے اس کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ انداز کچھ یہ تھا کہ اگر میں نے کسی فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا تو دوسرے اتنے بہت سے لوگ بھی تو تھے کہ جنہوں نے یہی کیا۔ محمود خان اچکزئی کی یہ بات کتنی صحیح ہے کہ ایوان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایسا کیوں ہے اور یہ ضمانت کون دے گا کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں تو واقعی ایسا نہیں ہوا۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنا سبق سیکھ لیا۔ اب جمہوریت اور جمہوری روایات کی حفاظت بڑی حد تک ان کے کاندھوں پر ہے۔ جہاں تک آئین سے وفاداری کا تعلق ہے تو اس کے کئی پہلو ہیں۔ جمہوریت اور آئین سے وفاداری کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہر ممبر جب حلف لیتا ہے تو اس پر اس لمحے یقین بھی رکھتا ہو لیکن اپنی زندگی، اپنے سارے سیاسی اعمال پر اس کو لاگو کرنے کے لئے غوروفکر اور خلوص نیت کی ضرورت ہے۔ میں یہ بات بار بار دہراتا رہا ہوں کہ پاکستان کا موجودہ بحران سیاسی اور معاشی اتنا نہیں ہے جتنا فکری اور اخلاقی ہے۔ اگر کرپشن ایک اہم مسئلہ ہے تو اس کا تعلق بھی حکمران سیاستدانوں کی دانش اور ان کے کردار سے ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اب تک میں نے جنرل پرویز مشرف کا ذکر نہیں کیا تو چلتے چلتے یہ بات میں آپ کے ذہن میں چھوڑے جا رہا ہوں۔ اب آپ یہ تصوّر کریں کہ جنرل مشرف کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ وہ کیا کہیں گے؟ ایک سوال آپ یہ بھی اٹھا سکتے ہیں کہ پاکستان جنوبی افریقہ تو نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں تو قبائلی رسومات اور سوچ کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تازہ ترین