• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانی بات ہے لیکن انہونی سی لگتی ہے۔ مصرعہ ہے زبیر رضوی کا اور بات 1985 تک جاتی ہے۔ مقام ہے نیروبی، ہزاروں عورتیں تھیں، ہر ملک، ہر رنگ اور ہر لباس میں، یہ بین الاقوامی خواتین کانفرنس تھی۔ لاکھوں لوگوں کو بھلا کون یاد رکھتا ہے مگر میرے ذہن میں ملاقات کے لیے صرف دو نام کلبلا رہے تھے۔ ایک امریکی عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے اور لکھنے والی بیٹی فرائیڈن اور دوسری مصری دھڑے دار ڈاکٹر نوال سعدوی، جس کو سادات حکومت نے عورتوں کےسرکم سیژن کے خلاف جگہ جگہ جاکر بولنے پرجیل میں ڈال دیا تھا، وہاں نوال نے زیرو پوائنٹ نام سے کتاب لکھی۔ جیل جانا ان کی زندگی کے کاموں میں شامل ہوگیا۔ عورت کے حوالے سے وہ ہر حکومت خاص کر مسلم ممالک جس طرح عورتوں پر قدغنیں لگاتے ہیں، وہ اس پر بے محابا تنقید کرتیں۔ آج اگر وہ زندہ ہوتیں تو ترکی میں خواتین کے تحفظ کے آرڈیننس کو منسوخ کرنے پر سب سے پہلے شور مچاتیں۔

بات شروع کی 1985 سے اور آج کی ترکی تک کیوں پہنچی۔ اس لیے کہ نوال سعدوی جو میری 1985 میں دوست بنی تھی۔ وہ 89 سال کی عمر کی حد پار کرکے، دنیا سے چلی گئی۔ وہ دنیا کے نقشے اور تاریخ میں اس لیے رہے گی کہ اس نے 55 کتابیں لکھیں۔ طوفان تو پہلی کتاب ختنے کے خلاف پہ اٹھا۔ پھر مسلمانوں کے ایک سے زائد شادیاں کرنے کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا۔ مصری اخباروں میں بھی مضامین لکھتی رہیں۔

وہ تو دریائے نیل کے ڈیلٹا پہ واقع ایک گائوں میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 6 سال کی تھیں جب انکا سرکم سیژن کردیاگیا۔ اس پر ملال کا اظہار وہ اکثر کیا کرتی تھیں۔ وہ بطور ماہر نفسیات، عورتوں میں شعور بڑھانے کے لیے یونیورسٹیوں میں لیکچر دیا کرتی تھیں۔ 1972 میں انہوں نے عورتیں اور جنسیات کے موضوع پر کتاب شائع کی۔ سارے مذہبی حلقوں نے تابڑ توڑ حملے کیے اس حد تک ہوا کہ ان کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ رجعت پسندوں نے انکو اپنے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے امریکہ میں ڈیوک یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھانے ہی میں عافیت جانی کہ ان ہی دنوں میں یعنی 1994 میں نجیب محفوظ پر پیچھے سے حملہ ہوا تھا۔ انہوں نے جنسی ہراسانی اور عورتوں کی کم عمر میں شادی پر بھی بہت کچھ لکھا، پڑھا اور یونیورسٹیوں میں، استادوں اور نوجوانوں کو ترغیب دیتیں کہ وہ آزاد عورتوں سے شادی کریں۔ اسی مدوجزر میں ان کی شادی شدہ زندگی میں تین دور آئے، اس پر بھی 2007 میں مسلم سنی اتھارٹی نے پابندیاں ان کی تحریر اور کردار پر لگانے کی کوشش کی کہ کسی طرح گھروں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں لکھنا چھوڑ دیں۔ وہ عورتوں کی ذہنی بلوغت کو فروغ دینے کے لیے کتابیں لکھتی گئیں۔ یہ سوچ کہ وہ اب ہم میں نہیں مگر چاہے ملک مصر ہو کہ پاکستان، عورت کا نام سنتے ہی رجعت پسندی کے علمبردار، مذہب کا نام لیکر اپنی رعونت دکھاتے ہیں۔

یہیں مجھے ایک اور دوست بلکہ دو دوست یاد آگئے ہیں۔ ایک تو پرانی کمال اداکارہ سمیتا پاٹل جو مجھ سے ملنے میرے کمرے میں نیروبی میں آئی۔ میں نے پوچھا ’’تمہیں میرا (نام) اور پتہ کس نے دیا؟ بولی ’’ساگر سرحدی نے ‘‘،واقعی وہ میرا بہت عزیز دوست تھا۔ بازار جیسی فلم بنانے والا اور پھر فلم کبھی کبھی جیسی بے شمار فلموں کے ڈائیلاگ لکھنے والے کو خود بھی کہانیاں لکھنے اور شاعری پڑھنے اور ادیبوں کی محفلوں میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ پہلی دفعہ میں 1985 میں نیروبی کے علاوہ بمبئی بھی گئی۔ باقر مہدی نے ایک چھوٹے سے کمرے میں دری بچھائی۔ علی سردار جعفری سے لیکر سارے ادیب اور نوشاد صاحب کے علاوہ، شبانہ اور جاوید اختر کو بھی بلایا، وہاں سب سے زیادہ سب کی آئو بھگت کرنے والا ساگر سرحدی تھا۔

سمیتا پاٹل کو بھی عجیب عجیب لوگوں سے ملنے کا شوق تھا۔ وہ میرے کمرے میں آئی۔ بالکل سادہ ململ کی ساڑھی، چپل پہنے، میک اپ سے عاری، بالوں کا ہاتھ سے جوڑا بنائے، ہنس پڑی۔ بولی جیسا مجھے ساگر نے بتایا تھا تم بھی ویسی ہی گفتگو کرنے والی ہو۔ اب کچھ دیر گفتگو کے بعد، میں نے سوال کیا ’’تم نے راج ببر سے شادی کیوں کی؟‘‘ میرے سوال کی وجہ یہ تھی کہ نادرہ، سجاد ظہیر کی بیٹی ہماری دوست اور راج ببر کی بیوی تھی۔ وہ ایک دم سوچ میں پڑگئی۔ سچ بتائوں۔ مجھے اس سے عشق ہوگیا تھا۔ میں نے کہا وہ تو ہر مرد یہی کہتا ہے۔ ہنسی پھر کہا شاید ایسی غلطی کہ میری چھوٹی سی غلطی، زندگی معلوم ہوتی ہے۔ بات بدلتے ہوئے ہم دونوں نے چتر لکھا کے ڈانس ڈرامے کی جانب بات کا رخ موڑ دیا۔ چند مہینوں بعد اس کے یہاں بیٹا ہوا۔ عورتوں کا ایک جلوس جھگی میں رہنے والے لوگوں کو گھر دینے کے لیے نکل رہا تھا۔ چند دنوں کے بچے کو چھوڑ کر وہ جلوس میں چلی گئی۔ وہ شادی کے بعد عجیب تذبذب میں تھی۔ وہ جلوس سے واپس آئی۔ اس کے دماغ کی رگ پھوٹ گئی۔ وہ مرگئی اور راج ببر خیر سے واپس نادرہ کے پاس چلاگیا۔

یہاں مجھے گلزار اور راکھی کی شادی اور اس کے بعد کس قدر خوبصورت فیصلہ تھا کہ بس اب الگ الگ رہنا ہے۔ میگھنا دونوں کی بیٹی ہے۔ زندگی کو دہرانا نہیں۔ آگے دیکھنا اور شاعری کرنا ہے۔ میگھنا نے باپ اور ماں دونوں پہ کافی ٹیبل بک بنائیں۔ وہ فلمیں بنارہی ہے۔ کبھی کبھار، بھولے سے راکھی کوئی فلم سائن کرتی ہے۔ ورنہ، زندگی ایسے گزارنے کا فیصلہ، دونوں کا تھا اور دونوں کا ہے۔

بات نوال سعدوی سے شروع ہوکر میرے خوبصورت اور خوب سیرت اور باکمال شاعر گلزار پر آکے ٹھہری۔ کتنی قیمتی یادیں میں نے آپ کے ساتھ شیئر کیں، مسکراتی یادیں۔ جو فنا نہیں ہوں گی!

تازہ ترین