(گزشتہ سے پیوستہ)
زیر نظر موضوع پر ’’آئین نو‘‘ کی پہلی دو اقساط میں واضح کیا گیا کہ کس طرح پاکستان میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مطلوب قومی سیاسی قیادت کا خلا بہت حد تک مشرقی و مغربی پاکستان کی قومی جماعتوں کے اتحاد ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (DAC) سے پورا ہوا، لیکن مشرقی پاکستان سے نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کے قائد مولانا بھاشانی اور مغربی پاکستان میں نومولود پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت (ایوبی) ڈیک مذاکرات کا بائیکاٹ کرکے ہر دو صوبوں میں حکومت مخالف تحریک کو ملک گیر ایجی ٹیشن میں تبدیل کردیا۔ یوں مذاکرات کے وہ حصولات جن کے روبہ عمل ہونے سے ڈیک کے مطالبات کے مطابق انتخابی و سیاسی عمل شروع ہونا تھا ،سبوتاژ کردیئے گئے۔ گویا ایجی ٹیشن سے مطلوب جمہوری عمل پر ایٹ لارج قومی اتفاق ہو کر بھی اس کا تو آغا ز نہ ہوا۔ یحییٰ خانی مارشل لا لگ گیا۔ اس کے تحت الیکشن 70ء ہوا تو یحییٰ ، بھٹو گٹھ جوڑ سے بعد از انتخاب کا تشکیل حکومت اور آئین سازی کا عمل بھی روک دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں اکثریتی عوامی لیگ کا شدید ترین احتجاج، ملٹری آپریشن، مجیب کی گرفتاری، اسے مغربی پاکستان میں قید کرنے نے جیتی اکثریتی جماعت کی بھارتی حکومت سے گٹھ جوڑ اور پھر جنگ کی صورت حال پیدا کی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ واضح رہے ڈیک کی تشکیل (1968) مغربی و مشرقی پاکستان کے قومی سطح کے رہنمائوں پر فاطمہ جناح کو متفقہ صدارتی امیدوار بنانے کا فالو اپ بھی تھی۔
باقیماندہ پاکستان میں نفاذِ آئین 1973 ءکے بعد بھی بھٹو حکومت کے ملک کو مکمل غیر آئینی حربوں سے چلانے کی انتہااور الیکشن 1977 ءمیں ملک گیر دھاندلیوںنے بھٹو حکومت مخالف ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ حیرت انگیز طور پر ایک رات میں قائم ہو گیا، اس کا نتیجہ بھی کچھ ڈیک کے قیام کے نتائج سے مماثلت کا حامل ہوا۔ جس طرح ڈیک کے بعد مذاکرات کے بائیکاٹ اور پھر مذاکرت کے حاصل کو ایجی ٹیشن شروع کرکے 1968 ءکے مار شل لا کے بعد یحییٰ خانی مارشل لا کی راہ ہموار ہوئی تھی، اسی طرح الیکشن 1977 ءمیں ملک گیر اور شدید انتخابی دھونس دھاندلی کے خلاف مکمل جینوئن جمہوری عوامی تحریک اور اس کے خلاف بھٹو حکومت کی مسلسل مزاحمت نے جہاں پی پی کی اخلاقی اور سیاسی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا تو بھٹو کی دوبارہ سے بحال ہوتی مقبولیت کے آگے بند باندھنے کے لئے یک جان دو قالب ہوگئے۔ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کا جو دور رس نتیجہ نکلا وہ آج کی اسٹیٹس کو کی سیاست کا بڑا ستون ہے۔ضیاء حکومت نے قومی اتحاد کے بڑے دھڑے بشمول مسلم لیگ، جماعت اسلامی، ولی خان کی پی این پی، جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان کے پارلیمانی گروپس کی چارجڈ سیاسی قوت کو ملا کر جو اپنا کلہ مضبوط کر لیا۔ دوسری جانب معتوب پی پی کے لیڈر بھٹو صاحب کے خلاف داخل دفتر مقدمہ قتل کھل گیا، سزا ہوئی اور وہ سیاسی منظر سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئے۔ شدید ردعمل میں پی پی اور قومی اتحاد ہی کے کچھ ٹوٹے تاروں نے مل کر ایم آر ڈی بنائی جو ڈیک کے بعد پاکستانی سیاسی تاریخ کا تیسرا بڑا اتحاد تھا۔ اس کا نتیجہ ایک اور ردعمل کی شکل میں نکلا، ملک کی سیاست میں پی پی (مائنس بھٹو) اور ضیا ء الحق کی حمایت و مخالفت میں تقسیم ہوگئی۔ بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ پی پی پنجاب میں کمزور ہونے لگی، ضیا حکومت اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے دھکیلتے دھکیلتے مسلم لیگ کو بھی جونیجو اور ن لیگ میں تقسیم کردیا۔ پی پی نے ایم آر ڈی ضیاء الحق مخالف تحریک میں نوابزادہ نصرﷲ، مولانا نورانی، مولانا فضل الرحمٰن، ملک قاسم اور سردار عبدالقیوم کو مکمل قبول کرکے اپنا قومی تشخص بچانے کی کوشش کی، لیکن پنجاب و سرحد میں تحریک کمزور رہی تو اس نے سندھ کارڈ پکڑ لیا، لاہور جو پی پی کا قلعہ تھا، سلیکٹر کی سرپرستی میں شٹرپاور اور علماء کی سیاسی کرامات سے شکست و ریخت کے عمل میں آگیا۔ سلیکٹرز نے اپنی طاقت اور حکمت سے جو پی پی مخالف عوامی طاقت تشکیل دی وہ اپنے بہت لو کیلیبر کے باوجود مقبول عوامی طاقت بننے لگی۔ اتنی کہ سلیکٹر ز کو آنکھیں دکھانے لگی تو اپنے ہی دھڑن تختے، سودے بازی سے خود ساختہ جلاوطنی اور ملک پر ایک اور ہی طرز کے مار شل لا کا سبب بنی۔ پاکستان میں بحالی اور استحکام جمہوریت کی بڑی قومی ضرورت پوری کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں نے بہت پاپڑ بیلے لیکن ڈیزاسٹر اپنی اجتماعی تاریخی کوششوں سے بڑھ کرکئے۔ آمریتیں ختم بھی کیں لیکن حقیقی جمہوریت بحال کرنا تو کجا متعارف بھی نہیں کرا سکیں بلکہ خود آمر بن گئیں یا ان کی منظور نظر۔ ہر منتخب حکومت کے پس پردہ، ہر عوامی مقبولیت کے پیچھے، ہر اتحاد کی وجہ ذاتی، گروہی، محدود سے نظریاتی مفادات کی داستان ملے گی۔ ان اتحادوں اور ان سیاسی پلیٹ فارمز کی 5سالہ کوششوں کا حاصل آج کا جاری اسٹیٹس کو ہے۔ تبدیلی حکومت نے بھی ایسے ایسے ’’نابغۂ روزگاروں‘‘سے عوام کی من پسند تبدیلی نکالنے کی کوششیں کیں جس میں سے مہنگائی، آئی ایم ایف کی جکڑ بندی ، بے اثر احتسابی عمل، اسٹیٹ بینک کی مہلک خود مختاری اور عجیب الخلقت گورننس برآمد ہو رہی ہے۔ اس سے نجات کے لئے انتخابی شکست سے دلبرداشتہ مولانا فضل الرحمٰن کی چھتری تلے پی پی اور ن لیگ نے ساتھ نبھانے کے جو وعدے کئے تھے وہ بھی ایک دوسرے کو سلیکٹرز کی پیداوار ہونے کے طعنوں پرختم ہو رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف تبدیلی کی دعویدار واحد قومی جماعت تو بن گئی لیکن اسے تبدیلی لانی ہی نہیں آتی، سلیکٹرز کی نظر انتخاب کے عشروں کے سلسلے سے کیا نکلا، کیا کھویا، کیا پایا؟ اس موضوع کو ایڈریس کرکے ہی ہمیں نئی نسل کے لئے کوئی راہ نکالنی ہے۔ وگرنہ حقیقت یہ ہے جو شاہد خاقان عباسی نے کہی کہ ’’ہم سب ہی سلیکٹڈ ہیں‘‘۔