• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد میاں نواز شریف نے نئی قومی اسمبلی میں جو پہلا حظاب کیا ، وہ ان کی بھر پور پریکٹیکل اپروچ کا عکاس ہے ۔ نو منتخب وزیر اعظم کا قوم سے پہلا خطاب تو ابھی ہونا ہے ، لیکن جوقومی ایجنڈا اسمبلی کے پہلے خطاب میں آ گیا ، وہی ان کا اصل اور ترجیحی ایجنڈا ہے ۔ ڈرون حملوں کا باب بند ہونا چاہیے ، لوڈشیڈنگ ختم کر نے کے جامع منصوبے کی تیاری کی نوید ، بد عنوانیوں کا سخت احتساب ، انسداد کرپشن، کراچی میں قیام امن کے لیے وفاق کی معاونت ،زرعی صنعتی و تجارتی شعبوں میں خود کفالت کا پروگرام ، پاکستان تا چین سڑک اور ریلوے لائن ، عوامی خدمات کے قومی اداروں کی اہل اور دیانتدارانہ سر براہی اور بہت اہم ، ایک متفقہ ایجنڈے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ ۔
پاکستان کی موجودہ گھمبیر صورت حال اور اپنی طرح ملک و قوم کی قسمت جگانے کے لیے بھی اقتدا ر کی تیسری باری کے پہلے مرحلے کا یہی ایجنڈا موجود قومی ضروریات اور عوام کی بے تاب توقعات سے میچ کرتا ہے ۔ تاہم اس میں ایک بڑی اور بنیادی کمی محسوس ہوئی، نظام ٹیکس میں اصلاحات کا پیکیج۔ چونکہ وزیر اعظم انتخابی مہم میں قومی معیشت کی بحالی پر بہت زور دیتے رہے اور مسلسل اغیار پر انحصار کرتی قوم سے عہد کر تے رہے کہ ” اس رزق سے موت اچھی ، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی “لگتا ہے میاں نواز شریف کو اب یہ برداشت نہیں کہ قومی معیشت کا انحصار عالمی مالیاتی اداروں اور عارضی ذرائع پر ہو ۔ وہ پُرعزم معلوم دیتے ہیں کہ اب قومی معیشت اپنے اور مستقل ذرائع پر استوار ہو ۔جدیداقتصادی سائنس کے مطابق خودمختار اور مستحکم ریاستی اقتصادی نظام قائم کر نے کی یہی اپروچ مطلوب ہے ۔آئین کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا بنیادی تقاضا بھی یہی ہے۔
اس کو پورا کر نے کے لیے ڈاکیومینٹیڈ اکانومی پر بیس کرتا ہوا صحت مند نظام ٹیکس کا قیام ناگزیر ہے ،جبکہ ہمارا موجودہ ٹیکس سسٹم لاغر ، کرپٹ اور دہرے قانون کے ظالمانہ طرز کا واضح عکاس ہے ۔ اس کا تمام بوجھ عوام اٹھاتے ہیں اور زیادہ آمدنی اور منافع کمانے والامحدود طبقہ فقط اس کا Beneficiaryہے بلکہ جو جتنا کماتا اور دولت مند ہے اس کا ٹیکس اتنا ہی کم ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ شعبدے بازیوں سے ان کی آمدنی اور دولت کے مطابق ٹیکس وصولی کے قانونی جواز پر پردہ ڈال دیا جائے ، لیکن عوا م اور باشعور طبقہ خوب جانتا ہے کہ ٹیکس چور ی ہی نہیں ڈاکے کے اصل حقائق کیا ہیں اور چور اور ڈاکو کون ہیں۔ سو، امید واثق ہے کہ ہمارے پُر عزم وزیر اعظم ٹیکس نظام میں اصلاح کے پیکیج کو جس طرح اپنی پہلی پارلیمانی تقریر میں شامل کر نے سے چو ک گئے اسے فوراً شامل کر لیں گے ۔ یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف کی پاور بیس صنعت کار اور تاجر برادری ہے، جن پر اصلاحاتی پیکیج بڑا گراں گزرے گا ، مزاحمت کے بھی واضح امکانات ہیں ۔ جتنے ہیں،اتنا ہی ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہیں۔ میاں صاحب کو اپنی اس پاور بیس اور لاڈلی برادری کے حلق سے یہ کڑوی گولی نگلوانا ہی پڑے گی ۔ ماشاء اللہ ! اللہ پاکستان کے اس خوش حال طبقے کی خوشحالی برقرار بھی رکھے اور یہ پھلیں پھولیں بھی ۔
قومی معیشت مستحکم اور بڑھتی رہی تو ملک بھی قائم دائم ہے ۔ پاکستان ہے تو صنعت کا پہیہ چلتا اور کاروبار چمکتے رہیں گے ۔ یقینابیڈ گورننس کے باعث موجودہ پاکستان سے بھی زیاد ہ نحیف ملکوں میں جا کر سر مایہ کار ی کرنا ہمارے اہل ثروت کی مجبوری بنا دی گئی تھی لیکن وطن اور اپنی نئی نسل سے محبت کے تقاضے تب ہی پوری ہونگے جب ہمارے محب وطن صنعت کار اور تاجر مجوزہ ٹیکس اصلاحاتی پیکیج کی کڑوی گولی حلق سے اتارنے کے لیے پُرعزم ہو جائیں جس طرح وزیر اعظم نواز شریف نے قومی معیشت کی بحالی اور اس کی جدت کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔گزشتہ پانچ سال سے حد درجہ مشکلات و مصائب میں گھرے عوام بشمول صنعت کاروں اور تاجروں نے آخر جمہوریت کا بھی تو تحفظ کیا۔
یہ کچھ ایسے ہی نہیں ہوا، اس میں ہماری انڈسٹریل اور بزنس کمیونٹی نیز بے روزگار ہونے والے لاکھوں محنت کشوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے تاریخی قربانی دی ہے۔ آج اسی کے سبب پاکستان کا وقار اور اس کا جمہوری تشخص پوری دنیا میں اجاگر ہو گیا ۔ میاں صاحب نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل ہی ”قومی معیشت کی بحالی“ کا عزم باندھ کر سیدھی راہ لے لی تھی ۔ لیکن یہ انہیں خو د اور ملک کو جب ہی منزل پر لے جائے گی جب وہ قومی معیشت کی بحالی اور اس کی جدت کے عزم کو عمل میں ڈھال سکیں گے ۔بظاہر یہ کار محال ہے ۔ عالمی اداروں کی امداد کے بغیر موجود گھمبیربحران کم ہوتا نظر نہیں آتا ۔ آئی ایم ایف نے پانچ ارب ڈالر پاکستان کو جکڑنے کے لیے طشتری میں رکھ دیے ہیں ۔ یہ پُر عزم وزیر اعظم کا پہلا امتحان ہے۔ خوش قسمتی سے ملک میں ابھی بھی وہ پوٹینشل موجود ہے جو بحران کی تخفیف اور اس کے بتدریج خاتمے کا وسیلہ بن سکتاہے ۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انرجی کے اذیت ناک اور تشویش ناک بحران کو ختم کیا جائے ۔ اقتصادیات کا گہرا شعور رکھنے والے بحران کے خاتمے اور اپنے وسائل سے قومی معیشت کی بحالی کو بجلی کی چوری کے مکمل خاتمے اور مطلوب ٹیکس سسٹم کے اصلاحاتی پیکیج اور اس کے سائنٹفک نفاذ سے منسوب کر رہے ہیں ۔ ان کا حساب کتاب بتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی مزید جکڑ بندی اور وزیر اعظم کے ایجنڈے کو عمل میں ڈھالنے کی یہی دو بڑی ضروریات ہیں یعنی بجلی چوری کا مکمل خاتمہ اور نظام ٹیکس میں اصلاح اور اصلاحات کا مکمل نفاذ ۔ جہاں تک بجلی چوری کے خاتمے کا تعلق ہے ،میاں شہباز شریف پنجاب میں اس کا قابل عمل ماڈل ڈویلپ کر کے دوسرے صوبوں کے لیے بھی راہ ہموار کر سکتے ہیں ۔ جہاں پاکستان تحریک انصاف کو اپنی پولیٹیکل ول اور گڈ گورننس کے قوم سے کیے گئے وعدوں کے مطابق خیبر پختونخوا میں ایسا ماڈل پنجاب سے بھی پہلے تیار کر لیناچاہیے ۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی یہ چیلنج درپیش ہو گا کہ اس نے دوبارہ سے قومی و وفاقی پارٹی کا درجہ حاصل کرنا ہے تو انسداد بجلی چوری کے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اختیار کیے گئے ماڈلز کو خود بھی رائج کرے بلکہ چیلنج تو یہ ہے کہ وہ اس ضمن میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کا انتظار اور تقلید نہ کر کے یہ ثابت کرے کہ ابھی تو جاں باقی ہے ۔بلوچستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے بھی توقع ہے کہ وہ اس ضمن میں پیچھے نہیں رہیں گے اور ثابت کر دیں گے کہ بلوچستان میں حقیقی تبدیلی آچکی ہے ۔بلوچستان میں تو ایک بڑا وسیلہ چھ سو کلو میٹر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ طاقت ور ونڈ پاور کی پاکٹس بھی ہیں ۔ اس سے بجلی پیدا کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو بلوچستان کی راہنمائی کرنا ہو گی ۔ جہاں تک ٹیکس سسٹم میں اصلاحات کا تعلق ہے ،یہ دو بنیادوں پرہی تیار ہونا چاہیے۔-1 صنعت کار اور بزنس کمیونٹی اپنی کمائی ، منافع اور ٹیکس کے قوانین و قواعد کے مطابق ہر حالت میں ٹیکس ادا کریں ،دوسرے اہل ثروت اپنے اثاثوں اور دولت کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی کریں۔ 2۔بھاری آمدنی کے وہ ذرائع جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ان کو ٹیکس ادائیگی کے دائرے میں لایا جائے ۔ یقینا میاں نواز شریف کے لیے یہ ان کی تیسری وزارت عظمیٰ کا سب سے بڑا چیلنج بن سکتا ہے لیکن اگر قوم نے ان پر تیسری بار بھی اعتماد کیا ہے تو توقعات کے بلند درجے کے گراف کا جواب موجود ہے ۔ وہ یہ کر گزریں تو نیا اور روشن پاکستان عیاں ہے ۔سو ، کاؤنٹ ڈاؤن شروع ،65سالہ ملکی تاریخ کے خوش قسمت ترین پاکستانی ، میاں نواز شریف کا امتحان عظیم شروع ۔ میاں صاحب!فیصلہ آپ کا آپ کے ہاتھوں میں ہے ، دل یا شکم ۔
ہمیں یقین ہے کہ آپ کا دل تو پاکستانی ہے اور آپ بھی اپنے گرویدہ صنعت کاروں اور تاجروں کو راہ راست پر لا سکتے ہیں ،کہ مضبوط او ر خوشحال پاکستان سے ہی ان کے شکم درست رہ سکتے ہیں ۔ سو ، انہیں اتنا ہی ٹیکس دینا ہو گا جتنا بنتا ہے ۔نہ دیا تو معیشت جدید ہو گی نہ مطلوب درجے پر بحال اور ان کے بنگلہ دیش ، ویت نام ، تھائی لینڈ ، کینیااور کوریا میں پاکستانی سر مایے کی منتقلی جاری رہے گی اور ہمارے مغرب اور خلیج میں ارب ہا ڈالر کے پاکستانی اکاؤنٹس منجمد ہی رہیں گے ۔ نواز شریف جتنے خوش قسمت ہیں اور جتنے پُرعزم اب انہیں اتنا ہی ذمہ دا ر بھی ہونا ہوگا۔
تازہ ترین