• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل کابینہ کی 25 رکنی ٹیم نے جب حلف اٹھایا تو پہلا ٹویٹ میں نے عامر متین کا دیکھا جس نے لکھا کہ نواز شریف صاحب کی کابینہ میں ایک تہائی کا تعلق گوجرانوالہ ڈویژن سے ہے۔ یہ گوجرانوالہ کیلئے ضرور خوشی کا پیغام ہو گاکہ جس خطے کو زیادہ تر لوگ خوش خوراکی اور کسرت کے حوالے سے جانتے تھے اب وہاں سے کیبنٹ منسٹر بھی کثیرتعداد میں پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس 25 رکنی کابینہ میں چوہدری نثار ،جیساکہ کہا جا رہا تھا داخلہ کے وزیرہوں گے بعض اخبارات نے اطلاعات کیلئے احسن اقبال کا نام لیا تھا لیکن احسن اقبال صاحب کو اب منصوبہ بندی اور تعلیم کی وزارت ملی ہے۔ اسحاق ڈار خزانہ امور کے انچارج ہونگے اور پرویز رشید صاحب جنہوں نے ابھی پانچ برس میں اپنی ٹیلیویژن پر اچھی کارکردگی دکھائی وہ اطلاعات کی منسٹری سنبھالیں گے۔ سعد رفیق کے حصے ریلوے کی منسٹری آئی ہے۔ یہ میرے خیال میں تو شاید سب سے مشکل منسٹری ہے اور سعد رفیق اگرچہ بڑے پرعزم اور جوش والے نوجوان ہیں لیکن اس خراب ترین صورتحال والی منسٹری کو کیسے بہتری کی راہ پر لگائیں گے؟ یہ آنیوالے کچھ دن ہی بتا دینگے۔ ریلوے کی منسٹری کے حوالے سے دو نام جو ہمارے ذہن میں آتے ہیں اپنے تجربے اور کارکردگی کی بنیاد پر لائقی اور نالائقی کے خطابوں سے نوازے گئے ہیں۔ پہلا نام لالو پرساد صاحب کا ہے جنہوں نے ہندوستان میں جب ریلوے کی منسٹری سنبھالی تو وہ خاصی ابتر حالت میں تھی لیکن اپنے اچھے کام، اچھی مینجمنٹ اور پرفارمنس کی بدولت انہوں نے دنیا کے اس برے ترین نظام کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ایک خراب ترین نظام کو اچھے نظام میں تبدیل کر دیا ۔ بدعنوان افسروں کو الگ کیا اور ایماندار نظام متعارف کرایا۔ ہندوستان میں لالو پرساد کو اگرچہ پہلے لوگ انکے لہجہ کی بنیاد پر مذاق کا نشانہ بناتے تھے لیکن انکے اس اعلیٰ ترین نظم و نسق نے انکو معتبر افراد کی فہرست میں شامل کر دیا۔ ریلوے کے حوالے سے دوسرا نام غلام احمد بلور کا ہے۔ جہاں ہندستان میں لالو پرساد نے اعلیٰ نظم و نسق قائم کیا وہاں پاکستان میں اسکے بالکل الٹ ہوا۔ بدنظمی، خرید و فروخت میں بے ایمانی نے ریلوے کو ایسی جگہ کھڑا کر دیا کہ جہاں سے آگے مکمل تباہی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ ایسے میں سعد رفیق اس بگڑے ہوئے سسٹم کی اصلاح کیسے کر پائینگے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ ہمارے ایک دوست نے جب سعد رفیق کے حوالے سے یہ سنا تو انہوں نے تبصرہ کیا کہ یہ تو سعد رفیق سے کوئی بدلہ لینے والی بات لگتی ہے۔ اسلئے کہ ریلوے کا نظام ٹھیک ہو ہی نہیں سکتا اور جب یہاں اور پیسے جو یقینا اربوں میں ہوں گے ڈبو لیں گے تو ساتھ ہی سعد رفیق پر تنقید بھی شروع ہو جائے گی۔
جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا کہ اس کابینہ میں 1/3 فیصد لوگوں کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ باقی وزراء کی لسٹ پر بھی اگر غور کریں تو اسمیں پنجاب اور خاص طور پر لاہور کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ اس لسٹ میں دوسرے صوبوں سے لوگ کم ہیں اور یہ چیز بعد میں مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرنے والے لوگوں کے ہاتھ آئیگی اور وہ دوسرے صوبوں اور پھر دوسرے شہروں کے محروم رہ جانے والے لوگوں کے حوالے سے ضرور بات کرینگے۔ اسی تنقید میں کچھ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حوالے سے ہے۔ ابھی تک کیبنٹ میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ تنقید کرنیوالے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک طرح سے فیصل آباد والوں کو صاف جھنڈی دکھا دی گئی ہے۔ پچھلے دور میں عابد شیر علی نے میڈیا پر مسلم لیگ (ن) کا دفاع بڑے پرجوش طریقے سے کیا اور امید یہ تھی کہ انہیں وزارت ضرور ملے گی لیکن انکا نام حتمی لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ اسی طرح فیصل آباد، جھنگ، چنیوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چار اضلاع پر مشتمل فیصل آباد ڈویژن کے 20 اراکین کے علاوہ جو آزاد ممبر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں انمیں سے کسی کو بھی ابھی تک اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ انکووزارت دی جائے۔ خدشہ یہ ہے کہ ملک میں جو اسوقت مشکل حالات ہیں ان سے نمٹنے کیلئے جسطرح کے وزیر چاہئیں شاید انکی کمی رہ جائے۔
اصلاحات کے حوالے سے اگرچہ لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اولین ترجیح معیشت اور انرجی ہے۔ اور اس کام کیلئے انہوں نے اپنے دو سینئر کارکنوں کا انتخاب کیا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب اور خواجہ آصف صاحب دونوں اپنی قابلیت اور اچھے نظم و نسق کے حوالے سے جانے جاتے ہیں معیشت اگرچہ ابتر حالات میں ہے وزارت خزانہ کے پاس IMF کی قسط دینے کے بعد صرف دو چار ماہ کیلئے زرمبادلہ بچے گا۔ اس کو بڑھایا کیسے جائیگا؟ میں بار بار یہ لکھتا رہا ہوں کہ ہمیں اپنی تجارت پر توجہ دینا ہو گی اور انڈسٹری کو ورائٹی دینا ہو گی۔ اب تک ہم نے اپنے ملک میں زیادہ تر ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ پر توجہ دی ہے لیکن دنیا میں حالات اب بدل رہے ہیں اور پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی بجلی کی کمیابی کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔ اس طرف فوری توجہ دینا ہو گی۔ انرجی ابتر حالت میں ہے اور اگرچہ پرویز رشید صاحب نے حلف اٹھاتے ہی جو بیان دیا اسکے مطابق ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہے لیکن خود خواجہ آصف صاحب نے فرمایا کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ مہینوں نہیں بلکہ سالوں میں ہو گا۔ تب تک عوام کا حال کیا ہو گا اور انرجی کی کمی انڈسٹری پر کیسے برے اثرات ڈالے گی؟ سوچنے کی بات ہے۔ ایسے میں کہ جب انرجی کی بحالی کے ساتھ ساتھ معیشت کی بحالی جڑی ہوئی ہے۔ خیر نئی کابینہ کے لوگ حلف اٹھا چکے۔ صوبوں میں بھی حکومتیں تقریباً بن چکی ہیں۔ اس موقع پر سب کیلئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ سب لوگ ملک کی خاطر بہتری کے کام کریں وگرنہ اس کے بعد بگڑنے کو بھی کچھ نہیں بچے گا۔
تازہ ترین