• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی فلسفی، والٹئیر کا کہنا تھا’’To be patriot means to be enemy of every body else ‘‘اِس کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ’’ محبِ وطن ہونے کا مطلب، باقی سب کا دشمن ہونا ہے۔‘‘ اُنہوں نے یہ جملہ صدر ڈیگال کے دورِ اقتدار میں کہا تھا، جب یورپ میں دوسری عالمی جنگ لڑی جا رہی تھی۔یہ کہنا تو مشکل ہے کہ دنیا اِسی فلسفے پر عمل کرتی ہے، کیوں کہ اب سفارت کاری نے نت نئے رُوپ دھار لیے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے سمجھوتے کرنا بُری بات نہیں رہی، تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت اب بھی سارتر کے قول پر عمل پیرا ہیں۔ شاید اِس ضمن میں زیادہ تفصیلات میں بھی جانے کی ضرورت نہیں کہ دونوں ممالک کی سات دہائیوں کی تاریخ اور حالیہ گرما گرمی سب کے سامنے ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان کچھ ایسے وقفے بھی آتے رہتے ہیں، جن میں بہتر تعلقات کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔

اُنھیں دیکھ کر دونوں طرف کے عوام بہت سی امیدیں باندھ لیتے ہیں، مگر پھر کسی واقعے کے سبب تعلقات، دشمنی میں ڈھل جاتے ہیں۔آج کل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کا دَور چل رہا ہے۔چند ہفتے قبل لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خوش خبری ملی۔پھر سفارتی تعلقات بحال ہونے کی باتیں سامنے آئیں اور تجارت شروع کرنے کے اعلانات ہوئے۔تاہم، اِس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان اور نریندر مودی کی حکومت میں دوستی کے امکانات کس حد تک ہیں؟

نریندر مودی کو اقتدار میں آئے سات سال ہوچُکے ہیں اور اُن کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اِس عرصے میں مُلک نے خاطر خواہ ترقّی کی اور عالمی سطح پر بھارت کی طاقت منوانے میں کام یابی حاصل ہوئی۔یقیناً بھارت اور اس سے باہر بہت سے لوگ اِن دعووں کو درست نہیں سمجھتے اور اُن کے پاس بھی دلائل کی کمی نہیں۔ جب دو مُلک ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے جارہے ہوں، تو سب سے پہلی چیز باہمی اعتماد کی بحالی ہوتی ہے۔بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان کے درمیان نہ صرف اِس وقت اعتماد کا فقدان ہے بلکہ دونوں کے درمیان بار بار اعتماد ٹوٹتا بھی رہا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اعتماد کی بحالی کے لیے کوششیں بھی کی گئیں، مختلف رہنمائوں اور حکومتوں کا اِس ضمن میں خاصا متحرّک کردار رہا ہے۔

اب دوبارہ تعلقات قائم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، تو سب سے پہلے اعتماد کی بحالی ہی کو ضروری خیال کیا جا رہا ہے۔ایک رائے یہ ہے کہ فوراً ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ یہ رائے رکھنے والوں کا خیال ہے کہ شاید اب زیادہ وقت موجود نہیں، لیکن دونوں ممالک کے پاس بداعتمادی کے سلسلے میں الزامات کی جو طویل فہرست موجود ہے، اُس کے ہوتے ہوئے سب کچھ بھول بھال کر آگے بڑھنا ممکن نہیں، بلکہ اسے دانش مندی بھی نہیں کہا جاسکتا۔

ہاں، بداعتمادی کے باوجود اگر ان الزامات کی عارضی تصدیق پر انحصار کیا جائے، تو شاید بہتر راہ نکل آئے۔یعنی اس عمل سے دونوں ممالک کا مکمل طور پر تو اعتماد بحال نہیں ہوسکے گا، مگر الزامات کم ضرور ہوتے چلے جائیں گے۔ تصدیق کا یہ عمل جلد نتائج دے گا اور دونوں ممالک کی حکومتیں بھی اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرسکیں گی۔وزیرِ اعظم، عمران خان نے’’ یومِ پاکستان‘‘ پر بھیجے جانے والے بھارتی ہم منصب کی نیک خواہشات اور پاکستانی عوام کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کرنے کے خط کا جواب دیا۔

وزیرِ اعظم نے جواب میں کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام بھی بھارت سمیت تمام ہم سایوں کے ساتھ پُرامن تعلقات چاہتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پُرامن تعلقات کے لیے جمّوں وکشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کاحل ناگزیر ہے۔عمران خان نے اِس بات کا بھی اعادہ کیا کہ تعمیری اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول ضروری ہے۔یہ تقریباً پاکستان کی ہر حکومت کا مؤقف رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں طرف سے ماحول سازگار بنانے کی جو بات کی گئی ہے، اس پر عمل کیسے ممکن ہوگا؟ کیوں کہ یہ مذاکرات کی طرف پہلا قدم ہوگا۔

دونوں مُمالک ایک دوسرے پر مختلف نوعیت کے الزامات لگاتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے اہم اور بنیادی معاملہ کشمیر ہے۔اس کا کہنا ہے کہ بھارت اقوامِ عالم کے سامنے کیے گئے وادیٔ کشمیر میں رائے شماری کے وعدے سے منحرف ہوگیا۔صرف یہی نہیں، وہ تقریباً سات عشروں سے سات لاکھ سے زاید فوج کے ذریعے معصوم، بے گناہ اور بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو بدترین ظلم وستم کا بھی نشانہ بنا رہا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیے بغیر کسی قسم کی بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی اور اگر ایسا کیا بھی گیا، تو وہ عمل پائیدار نہیں ہوگا۔ عمران خان ہی کے دَور میں بھارت نے کشمیر میں طویل ترین لاک ڈائون کیا، آئین کی شق 370 ختم کی اور علاقے کی تین صوبوں میں تقسیم کا ڈراما رچایا۔ اب بھی کشمیری قیادت جیل میں ہے یا پھر گھروں میں نظر بند۔پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستان دشمنی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔

دونوں کے درمیان چار جنگیں ہوچُکی ہیں۔بنگلا دیش بنانے میں بھارت کا کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔خود نریندر مودی اپنے حالیہ دورۂ بنگلا دیش میں پاکستان میں مداخلت کا فخریہ طور پر اعتراف کرتے رہے۔مودی نے اپنی الیکشن مہم پاکستان مخالف نعرے کی بنیاد پر چلائی۔نیز، بھارت افغان سرزمین کو بھی پاکستان میں عدم استحکام کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پانی اور دریائوں کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے، جب کہ سیاچن بھی دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کی وجہ ہے۔ 

دوسری طرف بھارت، پاکستان پر کشمیر میں مسلّح در اندازی کے الزامات عاید کرتا ہے۔نیز، پاکستان پر بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوّث ہونے کے الزامات بھی تھوپے جاتے رہے ہیں، اِس ضمن میں ممبئی، پٹھان کوٹ اور پلواما واقعات خاص طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔

تاہم، پاکستان کا اِس حوالے سے اصرار ہے کہ بھارت الزام تراشی کی بجائے ثبوت پیش کرے، تو وہ ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔اسلام آباد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیتا، لیکن بھارت دنیا بھر میں منفی پروپیگنڈے کے ذریعے اُس کا امیج تباہ کرنے کی سازش جاری رکھے ہوئے ہے۔بھارت ہر فورم پر اُس کی مخالفت کرتا ہے، اُسے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈلوانے کی بھی کوششیں کررہا ہے، جس میں اب تک اُسے ناکامی ہی ہوئی ہے۔وہ کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس بھیج کر بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔چند برس قبل تک پاکستانی فن کاروں، ادیبوں اور صحافیوں کا بھارت آنا جانا تھا، مگر اب یہ سلسلہ مکمل طور پر بند ہے۔

سارک فورم، جو جنوب ایشیائی ممالک کی واحد نمایندہ تنظیم تھی، اس کے تحت ہر دو سال بعد سربراہی ملاقاتیں ہوتی تھیں اور خطّے کی بہتری کی کوششیں کی جاتی تھیں، اب ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔بھارت سارک اجلاس بلانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، کیوں کہ اِس مرتبہ اجلاس اسلام آباد میں ہوگا اور مودی یہاں آنے کو تیار نہیں۔ اگر دونوں جانب سے الزامات کی فہرست پر نظر ڈالی جائے، تو پھر شاید بات چیت ناممکن ہی ہوگی۔خاص طور پر مودی انتظامیہ کا پاکستان کے خلاف جو طریقۂ کار رہا ہے، اُس میں تبدیلی کے بغیر معاملات آگے بڑھنا مشکل ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پھر بھی مودی حکومت سے بات چیت کی جاسکتی ہے اور اس کی ضرورت کیا ہے؟

بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے یومِ پاکستان کے موقعے پر دیے گئے پیغامات کا تاثر عرصے بعد نرم نظر آیا۔اُنہوں نے پاکستانی عوام سے تعلقات خوش گوار بنانے کی بات کی، حالاں کہ ِاس سے قبل وزیرِ اعظم، عمران خان اس قسم کی پیش کش بار بار کرچُکے تھے۔ اُن کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں امن کے بغیر جنوبی ایشیا میں غربت کا خاتمہ اور ترقّی ممکن نہیں، لیکن اُنھیں گلہ رہا کہ مودی حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔اب جب کہ کنٹرول لائن پر سیز فائر ہے اور کئی روز سے کوئی تکلیف دہ واقعہ بھی نہیں ہوا۔کورونا نے دونوں ممالک کے عوام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، تو کیا ماحول بہتر بنانے کے کچھ امکانات ہیں؟ماہرین کے مطابق، پاکستان سے معاملات میں بہتری بھارت کی مجبوری ہے۔ گزشتہ ایک سال سے اس کی چین سے متصل ہمالیائی سرحد کافی گرم ہے۔

گو کہ اب بات چیت ہو رہی ہے، تاہم بھارت ایک ساتھ دو محاذوں پر الجھنے کا متحمّل نہیں ہوسکتا۔اِس لیے وہ چاہے گا کہ پاکستان کے ساتھ اُس کے تعلقات اچھے نہیں، تو کم ازکم کشیدہ تو نہ رہیں اور جہاں تک ممکن ہو، کشیدگی کم کی جائے۔دوسری طرف پاکستان کی معیشت خاصی دبائو میں ہے اور منہگائی نے حکومت کو پریشان کر رکھا ہے، ایسے میں حکومت چاہے گی، جس کا اظہار پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار کیا بھی جارہا ہے، کہ وہ اپنی باقی دوسالہ مدّت میں معیشت پر فوکس رکھے۔حال ہی میں وزیرِ اعظم نے اپنی معاشی ٹیم میں بھی تبدیلی کی۔نئے وزیرِ خزانہ کی زیرِ صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پہلے ہی اجلاس میں بھارت سے چینی، کپاس اور دھاگا درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ حمّاد اظہر نے بتایا کہ چینی پانچ لاکھ ٹن درآمد کی جائے گی، کیوں کہ باقی ممالک کی نسبت یہ سستی ہے۔

نجی شعبہ پہلے ہی بھارت سے کپاس درآمد کرنے کی اجازت مانگ رہا تھا، کیوں کہ اسے یہ وسطی ایشیا اور برازیل سے درآمد کرنی پڑ رہی ہے، جو کافی منہگی ہے۔تاہم، اگلے ہی روز وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ مسترد کردیا۔ اس موقعے پر وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ مسئلۂ کشمیر حل کیے بغیر بھارت سے تجارت ممکن نہیں۔ مودی حکومت کی تمام تر جابرانہ پالیسیز ایک طرف، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ سات سال سے اقتدار میں ہیں۔ اُن ممالک سے بھی اُن کے ذاتی روابط ہیں، جنھیں پاکستان کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ان میں چین، عرب ممالک اور امریکا شامل ہیں اور خبروں کے مطابق یہی وہ مُمالک ہیں، جو دونوں ملکوں کے ماحول کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔چین کا سی پیک کی شکل میں ایک بین الاقوامی منصوبہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔

وہ بڑی عالمی طاقت بننے کے تمام کوائف پورے کر رہا ہے، ظاہر ہے کہ اُسے ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنے زیرِ اثر علاقے میں امن چاہیے۔حالیہ دنوں میں اُس کے ایران کے ساتھ معاہدے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اگر چین جیسا دوست مُلک بھارت کے ساتھ ماحول کی بہتری میں موجود ہو، تو بہت سے امور پر کام کرنا ہمارے لیے آسان ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل ہم اپنے عرب دوستوں سے شاکی تھے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے کشمیر پر آواز بلند نہیں کر رہے، لیکن حقائق بتا رہے ہیں کہ یہی عرب مُلک بیک ڈور رابطوں کے ذریعے بھارت کو اپنے رویّوں میں تبدیلی پر قائل کر رہے ہیں۔

کشمیر اور دیگر تنازعات سے متعلق پاکستان اور بھارت کے عوام کا ایک مخصوص رویّہ ہے۔سات عشروں سے جاری دشمنی نے دونوں ممالک کے عوام میں بھی مخالفانہ جذبات منتقل کیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اِس وقت دونوں ممالک کی تیسری، چوتھی نسل پروان چڑھ چُکی ہے اور اُن میں مخالفت کی وہ شدّت نہیں، جو پچھلی نسلوں تک رہی۔65 ء اور 71 ء جیسی جنگیں بھی نئی نسلوں کے لیے صرف تاریخ کی داستانیں ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ دونوں ممالک میں اِس وقت آبادی کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو لڑائی جھگڑے کی بجائے ترقّی اور بہتر زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔اِس لیے ماحول میں وہ تنائو عوامی سطح پر نہیں، جو پچاس، ساٹھ سال قبل تھا،لیکن بہرحال دشمنی موجود ہے اور کشمیر جیسے تنازعات پر دونوں ممالک کی حکومتوں کا واضح مؤقف بھی سامنے ہے، جس سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

پھر ہر بات پر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے سے بھی گرما گرمی پیدا ہوتی ہے۔مودی حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں کشمیر میں جس قسم کے انتہا پسندانہ اقدامات کیے، وہ اب کیسے یو ٹرن لے سکتی ہے ؟ اُس کے لیے اپنے عوام کو مطمئن کرنا بہت مشکل ہوگا۔البتہ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اپنے عوام کو کسی حد تک مطمئن کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ وہ عوام کو قائل کرسکتے ہیں کہ دونوں ممالک میں پُرامن تعلقات اور تنازعات پر مذاکرات شروع کرنے ہی میں خطّے کی بھلائی ہے۔اِس بات سے قطع نظر کہ عمران خان، نواز شریف کی حکومت کو کس انداز میں دیکھتے تھے، یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مودی نے نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا اور وہ شریک بھی ہوئے۔

پھر مودی، نواز شریف کی ایک ذاتی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان بھی آئے۔اِس سے قبل بی جے پی کے وزیرِ اعظم، واجپائی بھی نواز شریف ہی کے دور میں لاہور آئے تھے۔ وہ مینارِ پاکستان پر گئے اور دونوں ممالک نے’’ اعلانِ لاہور‘‘ بھی جاری کیا۔ عمران خان بھی پہلے دن سے کہتے رہے ہیں کہ اگر بھارت امن کے لیے ایک قدم بڑھے گا، تو وہ دو قدم آگے آئیں گے۔ یہ لیڈر اِس پیش رفت کے اندرونِ مُلک اثرات سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ دشمنی سے اختلاف اور اختلاف سے تعلقات پر جانے کے لیے کِن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ بہرحال، دونوں ممالک کے رہنماؤں کے لیے نئی شروعات پر اپنے عوام کو مطمئن کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

تازہ ترین