• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

کبھی لوگ اپنے کپڑوں خصوصاً سفید کپڑوں کی چمک بڑھانے کے لئے نیل کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اب تو مدت ہوئی کسی نے نیل کا نام ہی شاید نہ سنا ہو۔ نئی نسل کو کیا پتہ کہ نیل کس چڑیا کا نام ہے۔ رابن نیل بڑا مشہور ہوتا تھا۔ رنگ محل میں جو چوک اور بسوں کا آخری ا سٹاپ تھا، وہاں27، 13، 6اور 22نمبرکی بسیں آیا کرتی تھیں جو مختلف روٹوں سے ہو کر رنگ محل میں آخری بس اسٹاپ تک آتی تھیں۔ ان بسوں کا رنگ پیلا اور گہرا نیلا ہوتا تھا۔ ان کو لاہور اومنی بس سروس کہا جاتا تھا۔ ایل او ایس کے دو بڑے ڈپو تھے ایک اچھرہ، دوسرا گارڈن ٹائون میں۔ اچھرے والا کیمپ جیل کے سامنے تھا۔ رنگ محل کے وہ سارے بازار جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں وہ شادی بیاہ کے کپڑوں، زیورات، برتنوں اور دیگر ضروریات کی خریداری کے لئے بڑے مشہور تھے ۔لاہور میں سونے کی تمام دکانیں صرف اس علاقے میں تھیں یہ تو بعد میں گلبرگ، ڈیفنس ، مال روڈ، اچھرہ اور دیگر علاقوں میں قائم ہوئیں۔

گزشتہ ہفتے ہم حسبِ روایت گھومتے ہوئے ڈی ایچ اے فیز 6اور 7کی طرف چلے گئے۔ راستے میں ایک بڑا لمبا سوہا یا کھالہ دیکھا جس میں پانی چل رہا تھا۔ حیرت ہوئی کہ یہ سوہا اب تک کیسے بچا ہوا ہے؟ ہم تو لاہور شہر کا تاریخی حسن اور خوبصورت دیہاتی ماحول تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ یہ سارا ڈی ایچ اے جس کے فیز1، 2، 3(کبھی لاہور کینٹ کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی ، ایل سی سی ایچ ایس اور جسے پہلے گلزار ہائوسنگ اسکیم بھی کہا جاتا تھا) کا سارا علاقہ دیہاتی تھا۔ یہاں حد نظر کھیت ہی کھیت تھے اور کچے مکان بھی ‘ سرشام کوئی شہری اس طرف آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ برکی اور بیدیاں سرحدی علاقے تھے۔ اب تو برکی بارڈر تک ڈی ایچ اے پہنچنے والا ہے۔ لاہور شہر کے چاروں طرف دیہات کھیت اور پھلوں کے بے شمار درخت اور پودے تھے۔ ہم ایک ایسے شخص سے بھی ملے جو افغانی تھا، پولیس میں انسپکٹر تھا، گوروں کے زمانے میں۔ اس نے بتایا تھا کہ جہاں آج یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز ہے، جسے گھوڑا اسپتال کہتے ہیں، یہاں جنگل تھا اور وہ ڈاکوئوں کو پکڑنے یہاں آیا کرتا تھا۔ ہمیں اس نے یہ واقعہ 1970ء میں سنایا تھا۔ اس وقت اس کی عمر نوے برس سے زیادہ تھی۔ یہ پورا خاندان گھر میں فارسی اور افغانی زبان بولتا تھا ‘ یہ لوگ ہمارے ہمسائے میں ٹیپ روڈ بالمقابل گھوڑا اسپتال رہتے تھے۔ کوئی تین چار کنال کا گھر تھا وہ بھی لال اینٹ کا۔ ہم خود بھی جب میٹرک کے زمانے میں راوی میں کشتی چلانے جاتے تھے تو گھوڑا اسپتال کے پچھلی طرف کھیتوں میں جاتے تھے اور آگے راوی دریا تھا۔ کھیتوں کو بڑے کنوئوں سے‘ جن کے ساتھ بیل وغیرہ لگے ہوتے تھے‘ پانی لے کر سیراب کیا جاتا تھا۔ 1970کے لاہور اور آج کے لاہور میں زمین آسمان کا فرق ہے، جن لوگوں نے 1950اور 1960ء کا لاہور دیکھا ہے وہ آج کے لاہور کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں۔

راوی دریا کے علاقے میں گیدڑوں کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ ہم نے خود حال ہی میں رات کو فیز سیون میں سہہ (Porcupine)کو اپنی گاڑی کے آگے سے گزرتے دیکھا۔ کچھوے ، لمبے لمبے سانپ اور نیولے آج بھی آپ کو فیز سیون اور اس سے آگے بی آر بی نہر کے پاس نظرآئیں گے۔ میاں میر نہر سے کئی چھوٹے بڑے سوئے اور کھالے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔ آج بھی اپرمال پر میاں میر گائوں کا بورڈ نصب ہے۔ سارا اپر مال، دھرم پورہ، فورٹریس اسٹیڈیم ، یہ میاں میر گائوں اور میاں میر چھائونی کہلاتا تھا۔ حضرت میاں میرؒ صاحب باکرامت بزرگ تھے۔ رات گئے ان کے مزار مبارک پر جانے میںجو لطف اور سرور آتا ہے، اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جب رات بارہ بجے مزار مبارک کا دروازہ بند کیا جاتا ہے تو ایک شخص یہاں اتنی خوبصورت آواز میں نعت رسول مقبولؐ پڑھتا ہے کہ کیا عرض کریں۔ ایک تو میاں میر نہر جسے لوئر باری دوآب بھی کہتے ہیںاور ایک نہر شہر کے تیرہ دروازوں کے گرد بھی گھومتی تھی۔ بھاٹی گیٹ والی نہر پر ہم نے خود خواتین کو کپڑے دھوتے دیکھا ہے۔ ہم تانگے پر بھاٹی گیٹ سے بازار حکیماں میں اپنے نانا کے گھر جایا کرتے تھے ، اس مکان میں کبھی علامہ اقبالؒ کرایہ دار رہے تھے ‘اس مکان سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کیا تھا۔ یہ مکان آج بھی موجود ہے اور اس پر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے نام کی تختی بھی نصب ہے۔ کئی ٹی وی پروگراموں میں اس مکان کا ذکر ہو چکا ہے۔ علامہ اقبالؒ بھاٹی گیٹ میں ایک اور مکان میں بھی کرایہ دار رہے۔ اندرون شہر میں تھڑوں کی رونق کے علاوہ گرم حماموں کی بھی بڑی رونق ہوا کرتی تھی۔ جن نائیوں کی دکانوں پر لکھا ہوتا کہ گرم حمام کی سہولت موجود ہے وہاں پر بڑا رش ہوتا تھا۔ لوگوں کی اکثریت بال کٹوانے کے بعد اسی حجام کی دکان میں نہا بھی لیتی تھی۔ سردیوں میں گرم حمام پر نہانے والوں کا رش ہوتا تھا کیونکہ گھر میں لوگ کو پانی گرم کرنے کے لئے سو جتن کرنے پڑتے تھے۔ اندرون بھاٹی گیٹ محمد رفیع (گلوکار) اور ان کے بھائیوں کی بھی حجام اور دیگیں پکانے کی دکان تھی۔ محمد رفیع کے بھائی کیا دیگ پکایا کرتے تھے۔ ان کا گھر چومالا میں ہمارے ماموں کے گھر کے پاس تھا۔ چومالا بھاٹی گیٹ کا بڑا مشہور محلہ ہے۔ اس زمانے میں حجام بال کاٹنے کے علاوہ دیگیں پکاتے تھے، ختنےکرتے اور سدّے(شادی بیاہ کے نیوتے یعنی Invitation) لے کر بھی جاتے تھے۔ چومالا سے مراد جہاں چاروں طرف سے گلیاں آ کر ملتی ہیں۔ اندرون لاہور میں آج بھی بعض حویلیاں اور مکان چھوٹی اینٹ کے تعمیر کردہ ہیں۔ چھوٹی اینٹ کا فن تعمیر دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین