• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکت خداداد پاکستان میں محب وطن لوگوں کی کمی نہیں ، انہی میں ایک معتبر نام ڈاکٹر صفدر محمود کا ہے۔ جن کی حال ہی میں چھپنے والی کتاب ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے حقائق کو مسخ کرنے والوں کو تاریخی شواہد کے ساتھ بڑا مدلل جواب دیا ہے ـ:ڈاکٹر صاحب کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں :’’یہ کوئی سات آٹھ برس قبل کی بات ہے ایک روز مجھے پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلعی مقام سے بی اے کی ایک طالبہ کا فون آیا۔ اُس نے میری آواز سنتے ہی پوچھا انکل کیا آپ نے فلاں صاحب کا کالم پڑھا ہے؟ میرا جواب نفی میں سُن کر وہ رونے لگی۔ اُس نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ اُس دانشور نے قائد اعظمؒ کے بارے میں بڑی تکلیف دہ اور غلط باتیں لکھی ہیں‘ اس کے اندازِ تحریر سے گستاخی اور بد تمیزی کی بُو آتی ہے۔ میں نے بچی کو دلاسہ دینے کےلئے کہا کہ ہر شہری کو اظہارکا حق حاصل ہے ۔ میں وہ کالم پڑھتا ہوں اور اُس کا مدلل جواب دوں گا۔ تم غم نہ کرو۔ میںنے وہ کالم پڑھا۔ پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ محترم لکھاری صاحب نے تحقیق کی ہے نہ ہی بنیادی تاریخی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں۔ بس جوشِ تحریر میں قائد اعظمؒ پر الزامات لگانے کا شوق پورا کیا ہے۔ چنانچہ میں نے اُن کے کالم کا تاریخی مواد کے حوالے دے کر جواب دیا۔ انہوں نے چپ سادھ لی۔ لکھاری یا مؤرخ ہونے کے دعوے داروں کا ایک مکتبہ فکر تو وہ ہے جو سورج پر تھوک کر شہرت حاصل کرناچاہتا ہے۔ وہ سیدھے سادے تاریخی حقائق کی من پسند اور عجیب و غریب توجیہات پیش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو قائد اعظم سے کہیں زیادہ عقلمند، ذہین اور صاحبِ بصیرت ثابت کرکے ہماری قیادت کے فیصلوں پر منفی تبصرے کرتے ہیں۔ یہ حضرات قائد اعظمؒ کو نا پسند کرتے ہیں۔ یقین رکھیں میں نے یہ رائے ’’جلدی‘‘ میں قائم نہیں کی اس کے پس پشت کئی برسوں کا طویل مشاہدہ اور مطالعہ ہے۔ ان دانشوروں یا لکھاریوں کے ایجنڈے کا دوسرا پہلو قدرے زیادہ غور طلب ہے ۔ آج کل یہ لوگ ایک منظم انداز سے سوشل میڈیا اور ذاتی چینلوں پر چھائے ہوئے ہیں جو تشہیر اور نظریات کے فروغ کا بہترین ذریعہ اور مؤثر وسیلہ بن چکے ہیں۔ اول تو وہ قائد اعظمؒ سے ایسے بیانات منسوب کرتے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ ناظرین و سامعین تحقیق کی طلب محسوس نہیں کرتے نہ سچ کا کھوج لگانے کی فرصت رکھتے ہیں چنانچہ وہ سادہ لوحی کے سبب اُن کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکارہوجاتے ہیں۔ اُن کا تعارف اس انداز سے کرایا جاتا ہے کہ جیسے پاکستان میں اُن سے بڑا کوئی محقق ہے نہ کوئی اُن سے زیادہ بیرونی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں رکھتا ہے، پھر اُن کے بیانیے کو حرفِ آخر کا درجہ عطا کر دیا جاتا ہے۔ میں نے ایسے اسکالرز کے بیان کردہ بعض ایسے بیانات کی تحقیق کی جو اُنہوں نے قائد اعظمؒ سے منسوب کئےتھے تو حیران رہ گیا کہ اُن کا کوئی نام و نشان ہی نہ تھا۔ قائد اعظمؒ ایک قومی راہنما تھے۔ اُن کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کتابوں کی صورت میں چھپ چکے ہیں بلکہ اُن کے بیانات کئی کئی جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اُن سے اس طرح کے بیانات منسوب کرنا کہ ’’پنجابی پہلے پنجابی اور بعد میںمسلمان ہیں، بنگالی پہلے بنگالی اور بعد ازاں مسلمان ہیں‘‘۔ ایک ایسا دلفریب جھوٹ ہے جس کے دام میں سادہ لوح پاکستانی پھنس کر سوچنے پر مجبور ہوگا کہ قائد اعظمؒ تو مسلمانوں کو ایک قوم کہتے اور اس پر یقین رکھتے تھے۔ حصولِ پاکستان کی جدو جہد کا یہی مرکزی نقطہ تھا اور یہی بنیاد تھی۔ 11؍ اگست 1947ء کی تقریرمیں بھی قائد اعظمؒ نے پاکستانی قوم کو لسانی، نسلی، علاقائی اور صوبائی شناختوں کو دفن کرکے پاکستانی بننے کی تلقین کی تھی ۔ کیاایسا قائد اس طرح کا بیان دے سکتا ہے ؟ کس کے پاس فرصت ہے ایسے بے بنیاد الزامات کی تحقیق کرے۔ یہی عدیم الفرصتی ان حضرات کے لئے فائدہ مند ہے اور انہیں کھلا میدان فراہم کرتی ہے۔

اس بیانیے، دانشوری اور ایجنڈے کا دوسرا پہلو فکر انگیز او رغور طلب ہے ۔ اسی سے اُن کے اصل عزائم اور باطنی خواہشات بے نقاب ہوتی ہیں۔ اب اُن کے لیکچراور گفتگو سنیے۔ وہ بڑی سادگی سے سامعین و ناظرین کو یہ پیغام دیں گے کہ متحدہ ہندوستان کا آپشن کہیں زیادہ بہتر تھا، گاندھی قائد اعظمؒ سے بڑا لیڈر تھا اور اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندوستان دنیا میں سپر پاور سمجھا جاتا جس سے امریکہ بھی گھبراتا۔ کس چمک او رجادو نے اُن کی آنکھوں سے اس حقیقت کو اوجھل کر رکھا ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو متحدہ ہندوستان میں بیس کروڑ کی بجائے ساٹھ کروڑ مسلمان غلا مانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے۔ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسا لیڈر ملا جس نےہمیں انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نجات دلوائی‘‘۔اس کتاب کا مقصد تاریخ پاکستان کو مسخ کرنے والوںکی سازشوں کو ناکام بنانا اور قائد اعظمؒ سے بد ظن کرنے کے لئے لگائے گئے الزا مات، من گھڑت تاریخی افسانوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کو تاریخی مستند شواہد سے بے نقاب کرنا اور سچ کو سامنے لانا ہے۔

تازہ ترین