• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک میں دو چیزوں کی مارکیٹ سب سے زیادہ ہے ،ایک ،فحاشی کے خلاف تحریری اور تقریری مواد کی،اور دوسرے ،خود فحاشی کی ۔جہاں فحاشی اور عریانی کے خلاف لکھی گئی تحریریں ہاٹ کیک کی طرح بکتی ہیں وہیں اس جنس کے خریدار بھی چپے چپے پر موجود ہیں ۔نہیں یقین تو کسی دن اس عورت سے پوچھیں جو روزانہ گھر سے نکل کر اپنے کام کاج کے لئے باہر جاتی ہے ،دفتر میں ملازمت کرتی ہے، روزمرہ معاملات نمٹانے کی خاطر مجھ جیسے مردوں کی نظروں کا سامنا کرتی ہے یا پھر اپنے ہی گھر میں تشدد کا سامنا کرنے پر مجبور ہے ،وہ عورت بتائے گی کہ اس ملک میں فحاشی کی کتنی اقسام ہیں اور ان کے خریدار کتنی قسموں کے ہیں!
جسے ہم فحاشی اور عریانی کا سیلاب کہتے ہیں ،یہ آخر ہے کیا؟ قابل اعتراض ڈرامے، بھارتی ناچ گانوں کے پروگرام، اشتہارات میں عورت کو بطور ماڈل پیش کیا جانا، بازار میں دستیاب فحش سی ڈیز یا پھر انٹر نیٹ پر موجود فحش مواد تک بلا روک ٹوک رسائی؟ قطع نظر اس بات سے کہ اٹھارہ کروڑ آبادی کے اس ملک میں فحاشی کا کوئی ”معیار“ مقرر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر شخص اپنی تعلیم، خاندانی تربیت، سماجی پس منظر اور مذہبی رجحانات کے مطابق ہی فحاشی کی درجہ بندی کرتا ہے، یہ بات البتہ طے ہے کہ کوئی کسی کی کنپٹی پر پستول رکھ کر فحاشی فروخت نہیں کرسکتا۔ بازار میں انگریزی، بھارتی یاپشتو فلموں کی جو ”نارمل “یا فحش سی ڈیز دستیاب ہیں ان کے خریدار آخر کون لوگ ہیں ،آسمان سے اترتے ہیں یا بلیک واٹر کے ایجنٹ انہیں خرید کر دیکھتے ہیں؟ انٹر نیٹ کی صورتحال تو سب سے دلچسپ ہے ،فحش ویب سائٹس کا بلاک کرنا یقینا پی ٹی اے کا کارنامہ ہے مگر جذبے سے سرشار اگر کوئی نوجوان تُل جائے تو اس کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔کیا یہ سب لوگ عوام میں شامل نہیں، کیا انہیں کوئی مجبور کرتا ہے کہ وہ پیسے دے کر فحاشی خریدیں ؟ نہیں حضور ،یہ سب لوگ ہم میں سے ہی ہیں اور اگر ناگوار نہ گزرے تو یہ ہم ہی ہیں جو برضا و رغبت فحاشی خریدتے ہیں اور اس سے استفادہ کرنے کے بعد با وضو ہو کر ان لکھاریوں کی حمایت میں جُت جاتے ہیں جنہوں نے ملک میں فحاشی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ یہ بیڑا وزنی ہے اورنہ اس کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ یہ وہ مقبول عام نظریات ہیں جنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔
فحاشی کی لکیر کھینچنا بے حد مشکل کام ہے تاہم یہ لکیر زمانہ خود ہی واضح کردیتا ہے ۔مجھے سب سے دلچسپ بات یہ لگتی ہے کہ وہ نوجوان جو اپنے فیس بک پیج پر جنیفر لوپنس اورکترینہ کیف کو ”لائک“ کرتے ہیں ،ان کی ہوشربا تصاویر پر فقرے چست کرتے ہیں ،اپنی پسندیدہ اداکاراؤں کی ایک ایک ادا پر ان کی نظر ہوتی ہے ، ان سب کے ساتھ ہی انہوں نے ”آئی لو گرلز ان حجاب“ ٹائپ کا کوئی پیج بھی لائک کیا ہوتا ہے !یہ وہ لوگ ہیں جن سے اگر سروے کے دوران پوچھا جائے کہ کیا آپ ملک میں اسلامی نظام کے حامی ہیں تو زور سے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیں گے لیکن اگر وہی نظام انہیں خود پر نافذ کرنے کو کہا جائے تو آئیں بائیں شائیں کریں گے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنی گرل فرینڈکو کرینہ کپور جیسا دیکھنا چاہتے ہیں، یورپی ملک کی شہریت لینا چاہتے ہیں ،دبئی ایئر پورٹ پر اترتے ہی سیدھا کسی نائٹ کلب کا رخ کرتے ہیں ،لاس ویگاس میں جوا کھیلنے کا بھی شوق ہے ،بنکاک میں مساج کروانے کو افضل قرار دیتے ہیں ،امریکہ میں بیٹھ کر ہمیں مذہب کے مروڑ اٹھتے ہیں اور یہ تمام فرائض انجام دینے کے بعد ہم پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی پر ٹسوے بہاتے ہیں۔
اصل میں ہم سب لوگ گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں، ہماری بشری کمزوریاں بھی ہیں اور معاشی مجبوریاں بھی۔ہمیں پارسائی کا نشہ بھی چاہئے اور گناہ کی لذت بھی، ہمارے اندر کا شیطان اس قدر طاقت ور ہو چکا ہے کہ وہ ہمیں گناہوں کا جو بھی جواز فراہم کرتا ہے ہم اسے فوراً قبول کر لیتے ہیں ۔لیکن پھر گناہ کی خلش ہمارا جینا حرام کردیتی ہے،پیسہ کمانے کے شارٹ کٹ کی طرح ہمیں ثوا ب کمانے کا بھی شارٹ چاہئے ،اسی لئے ہم اپنی ذات پر اسلام کی اصل روح نافذ کرنے کی بجائے وظیفوں کا شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں ، ذخیرہ اندوزی کرنے کے بعد داتا صاحب پر دیگیں چڑھاتے ہیں ،یتیم کا مال ہضم کرنے کے بعد حج کرنے چلے جاتے ہیں اوردفاتر میں عورتوں کو ہراساں کرنے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہائے ملک میں کتنی فحاشی ہے !آپ اس ملک میں فحاشی کا چھابہ لگالیں یا فحاشی کے خلاف چھابہ لگا لیں، دونوں طرح کا مال بکے گا ،دونوں شرطیہ مٹھے ہیں !
دُم تحریر: مجھے یہ بتانے کا قطعاً کوئی شوق نہیں کہ میرے فلاں کالم کا ریسپانس اس قدر شدید تھا بارک اوبامہ کی نیندیں اڑ گئیں یا منموہن سنگھ میرا کالم پڑھ کر بستر سے الٹ گیا ،البتہ ”اسلامی نظریاتی کونسل “ والا کالم اس لحاظ سے قابل فخر ضرور تھا کہ” مرشد اعلیٰ“ حسن نثار نے خاص طور سے اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا ،ان کی تعریف میں محبت کی ملاوٹ تھی حالانکہ وہ خود ملاوٹ کے سخت خلاف ہیں۔اس کالم کے رد عمل میں ایک اعتراض یہ سامنے آیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی زنا بالجبر ہواہے یا بالرضا ! درست بات ہے ۔عرض یہ ہے کہ گینگ ریپ کا شکار ہونے والی عورت جب ملزموں کی نشاندہی کرتی ہے تو وہ ملزم کہتا ہے کہ عورت جھوٹ بولتی ہے ،میں تو اس کے قریب بھی نہیں گیا ،وہاں ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ آیا ملزم جھوٹا ہے یا سچا ۔اگر وہ جھوٹا ثابت ہو جائے تو اس کے بعد اس بات کا تعین کرنے میں کوئی دقت نہیں کہ زنا مرضی کے ساتھ تھا یا جبر کے ساتھ۔بائی دی وے ،جن احباب نے ڈی این اے ٹیسٹ کے خلاف دلائل دئیے ہیں ،انہیں چاہئے کہ یہ دلائل اس نابالغ بچی کے لواحقین کو سنائیں جسے چار مردوں نے بھنبھوڑ کر قتل کر ڈالا اور اب با عزت بری ہوئے پھرتے ہیں !
تازہ ترین