• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزازحاصل کرنے والے میاں محمد نواز شریف منتخب ہونے کے بعد جب ایوان سے خطاب کر رہے تھے تو ان کے لب و لہجے سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ صرف وزیراعظم نہیں بلکہ ایک صحیح معنوں میں ایک لیڈر ہیں، ان کے خطاب میں اندر کی سچائی کی جھلک نظر آرہی تھی اور لگ رہا تھا کہ انہوں نے 14سال میں بہت کچھ سیکھا ہے وہ اپنے ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ نہ کرپشن کروں گا اور نہ ہی کسی کو کرپشن کرنے دوں گا ۔ تمام خودمختار اداروں کے سربراہان کا انتخاب شفافیت کی بنیاد پر ہوگا اور شفاف بھرتیوں کیلئے ایک بااختیار بورڈ قائم کیا جائے گا۔ انہوں نے نہ صرف غیر جمہوری قوتوں کو بڑے واضح انداز میں یہ پیغام دیا کہ وہ کسی بھی غیر جمہوری مہم جوئی سے باز رہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مشترکہ ایجنڈے پر بات چیت کی دعوت بھی دی۔ انہوں نے کہاکہ اب ڈرون حملوں کا باب بند ہو جانا چاہئے اگر ہم کسی ملک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں تو اسے بھی ہماری خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں اور خصوصاً الیکشن جیتنے کے بعد ان کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ بڑے پُرعزم اور ملک کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک کی سلامتی اور معاشی استحکام کیلئے گزشتہ 14برسوں میں جو خواب دیکھتے رہے انہیں اب عملی شکل میں دیکھنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ انہوں نے چین کے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران چین کو گوادر اور کراچی تک جوڑنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ وہ جو خواب دیکھ رہے ہیں ایسے ہی خواب اس ملک کے عوام بھی دیکھ رہے ہیں۔ اسمبلیوں میں پہنچنے والے سیکڑوں نئے چہرے پاکستان کی تعمیر کا ایک عزم لئے ہوئے ہیں۔ان میں فاٹا سے ایک خاتون رکن عائشہ گلالئی جو سب سے کم عمر رکن اسمبلی ہیں۔ وہ یہاں کے ایک کروڑ عوام کیلئے یونیورسٹی قائم کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا دیرینہ خواب پورا ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے مکالمے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ، عوام تو بہاولپور سے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی ایک غریب خاتون حسینہ ناز سے بھی خوش ہیں جو ڈیڑھ مرلے کے مکان میں رہتی اور عوام کی خدمت کا جذبہ لئے ہوئے اسمبلی میں پہنچی ہے۔ عوام کیلئے یہ بھی خوشخبری ہے کہ میاں نواز شریف نے اقتدار کے بجائے اقدار کو ترجیح دیتے ہوئے بلوچستان میں بلوچوں کے صحیح نمائندے کو وزیراعلیٰ کیلئے نامزد کیا ہے ۔ جس شخص ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا ہے وہ کوئی سردار نہیں بلکہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کیا اور زمانہ طالبعلمی سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ رہے پھر1988ء کے انتخابات میں صوبائی رکن منتخب ہونے کے بعد وزیر صحت اور 1990ء کے انتخابات کے بعد وزیر تعلیم رہے جبکہ اور 2006ء میں سینیٹر منتخب ہوئے ۔ بلاشبہ بہت اچھا فیصلہ ہے گو ن لیگ کو اسمبلی میں عددی برتری حاصل تھی مگر بلوچستان کے مسائل کے حل کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف وزیراعلیٰ کا اچھا انتخاب کیا ہے بلکہ گورنر بھی وہاں کے اصل نمائندے کو نامزد کیا جا رہا ہے۔ یہ خبر سن اور دیکھ کر عوام کی خوشیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ شکرگڑھ سے تعلق رکھنے والے رکن پنجاب اسمبلی مولانا غیاث الدین جو ایک مسجد میں امامت بھی کراتے ہیں وہ اسمبلی کے اجلاس میں موٹرسائیکل پر آئے اور صحیح عوامی نمائندہ ہونے کا ثبوت دیا۔ ہمیں یہ بھی یاد ہونا چاہئے کہ وفاقی وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر مغربی پاکستان اسمبلی کے جب رکن اور پھر قائد حزب اختلاف بنے تو وہ اپنی سائیکل پر آکر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیا کرتے تھے۔ عوام کو بڑی خوشی ہوگی کہ جب خواجہ آصف توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے ایسی کوئی مثال قائم کریں گے۔ پرویز رشید کی بطور وزیراطلاعات وفاقی کابینہ میں شمولیت میڈیا اور حکومت کیلئے بڑی خوش آئندہ ہے۔ عوام کی خوشیوں میں اضافے کیلئے ایک اور خبر عوام تک پہنچانی ضروری ہے کہ خیبر پختوانخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ جب حلف لینے کے بعد پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پہنچے تو انہیں پولیس دستے نے روایتی طور پر گارڈ آف آنر پیش کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ انگریزوں کی روایت تھی، ہمیں سادگی اپنانی چاہئے اور عملی نمونہ کیلئے انہوں نے کہا کہ وہ خود یا ان کا خاندان وزیراعلیٰ ہاؤس رہائش نہیں رکھے گا بلکہ وہ اپنی ذاتی رہائش گاہ میں رہیں گے۔ جب عوام اس طرح کی خبریں سنیں گے تو ان کی خوشیوں میں اضافہ تو ہوگا مگر اب یہ چیزیں خبروں اور بیانات تک نہیں رہنی چاہئیں بلکہ عوام ان پر عمل ہوتا ہوا بھی دیکھنا چاہتے ہیں الیکشن 2013ء ایک حوالے سے ملک کیلئے بڑا نیک شگون ہیں کہ تقریباً تمام صوبوں کے درمیان مختلف مینڈیٹ ہونے کی بنا پر ان صوبائی حکومتوں کے درمیان گڈ گورننس اور ترقی کیلئے مقابلہ ہوگا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے بھی حلف اٹھانے کے دوسرے روز یہ اعلان کیا کہ وہ کراچی میں دو سو نئی بسیں چلائیں گے، 43کلومیٹر سرکلر ریلوے کی بحالی کی بھی منظوری دی گئی ہے تاکہ ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوں اور سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں پر پابندی لگادی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی گارڈ آف آنر نہیں لیا بلکہ صوبے سے پٹواریوں سے نجات کا روڈ میپ اور غریبوں کیلئے گھروں کے جال بچھانے کا اعلان کیا ہے۔ عوام بھی سب حکمرانوں سے اچھی توقعات رکھتے ہیں لیکن انہیں یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اب سیاسی غلطیوں کی گنجائش نہیں، ہر غلطی آخری ہوگی اس لئے انہیں واضح انداز میں اپنی ترجیحات کا تعین کر کے درست سمت میں سفر شروع کرنا چاہئے۔
تازہ ترین