• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاست میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فرینڈلی اپوزیشن عوام کو دیکھنے کو ملی یہ بات ہماری ماضی کی سیاست سے بالکل مختلف تھی ۔ یار لوگوں نے مسلم لیگ (ن) جو حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی، خوب بھڑکانے اور حزب اقتدار پی پی پی کے حکمرانوں سے لڑانے کی بھرپور کوششیں کیں مگر ناکام رہے پھر پی پی پی کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں عام ہوئیں تو پھر فوج کی طرف جانے کی کوشش کی گئی مگر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے پورے دور میں پاکستان کی سیاست میں دخل دینے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی پھر مسائل سے بدحال عوام نے حکمرانوں کو سبق سکھا دیا اور اقتدار سے محروم کر کے قرعہ فال مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف کے نام نکال کر تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب کروا دیا ۔ ساتھ ساتھ جو سیاستدان گزشتہ 17سال سے کرپشن کو بے نقاب کرنے پر لگے ہوئے تھے انہیں بھی بہت پذیرائی ملی اور اگر انتخابات مکمل فوج کی نگرانی میں ہوتے تو یقینا نتیجہ بالکل مختلف ہوتا ۔ تحریک انصاف کیونکہ نووارد تھی لہٰذا وہ دھاندلی نہیں کرنا جانتی تھی اور نہ ہی چاہتی تھی لہٰذا پرانے سیاسی داوٴ پیچ اور بیلٹ بکسوں کو بھرنے کا آرٹ پھر غالب آگیا اور جس پارٹی کو جہاں موقع ملا بکس بھر دیئے اور الیکشن کمیشن کچھ نہ کر سکا۔ یہاں تک تو حقیقت تھی اب جبکہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار ملا تو مسلم لیگ (ن) کے قائد جنہوں نے یقینا جلاوطنی سے جمہوری سبق سیکھا تھا اور خاموش 5سال گزارے تھے ان کی پہلی تقریر وزیراعظم بننے کے بعد حقیقتاً پاکستان کے حقیقی وجود کی ترجمانی کر رہی تھی ۔
کاش لیاقت علی خان جو پہلے وزیر اعظم تھے ان کی شہادت کے بعد اگر ایسی روایت جو میاں نواز شریف نے ڈالی، خیبر پختونخوا میں سیاسی جوڑ توڑ سے گریز کر کے جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن کو مایوس کیا اور اقتدار تحریک انصاف کے عمران خان کے حوالے کر کے پہلی مثال قائم کی اور پھر بلوچستان میں اپنی برتری کے باوجود اقتدار مسلم لیگ (ن) کے بجائے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کے حوالے کر دیا یہ دوسری مثال تھی حالانکہ ان کے پاس صرف3سیٹیں تھیں۔ اس سے قبل بلوچستان کو ہمیشہ احساس محرومی کا گلہ رہتا تھا وہ بھی دور کر کے پاکستان سے محبت کرنے کا سبق یاد کروایا۔ ان کی پہلی تقریر میں انہوں نے سندھ اور خصوصاً کراچی کی صورتحال پر ایک طرف گہری تشویش کا اظہار کیا تو دوسری طرف دہشت گردی ، بھتہ خوری ، لاقانونیت ختم کرنے کیلئے مرکز کی طرف سے پورا تعاون کرنے کا یقین دلایا مگر افسوس صد افسوس ٹھیک ان کی تقریر کے چند گھنٹے بعد ایم کیو ایم کے تین ہمدرد بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔ شام تک 3تاجر جن کو بھتہ کی پرچیاں ملی ہوئی تھیں بھتہ نہ ملنے پر ان کی گاڑیوں کا پیچھا کرکے بھرے بازار میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ آج تک قاتل وہی دہشت گردوں کی طرح کھلے عام گھوم رہے ہیں پھر شام تک ایم کیو ایم نے سوگ منانے کا اگلا دن مقرر کر کے ماضی کی یاد تازہ کر دی اور کراچی کے پُرامن شہری سارا دن ڈر سے گھروں میں دبکے بیٹھے رہے۔
اس شہر کو ایک دن بند کرنے سے کھربوں کا نقصان ہوتا ہے ۔ میاں نواز شریف سے میری گزارش ہے کہ جب تک کراچی میں دہشت گردی بند نہیں ہوگی ان کے تمام دعوے خواب ہی رہیں گے اور پھر یہی وعدے ماضی کے سیاستدان ، حکمرانوں کی طرح بھاپ بن کر اُڑ جائیں گے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ کراچی میں آکر اور زیادہ سے زیادہ یہاں وقت گزار کر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کر کے ہی امن قائم کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں بھتہ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، دہشت گردوں کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے جس کو توڑنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ صنعت کار اب صرف آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ان کی جان و مال ، آبرو کا تحفظ اب آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ کراچی کے عوام اس الیکشن میں پہلی مرتبہ کھل کر سامنے آئے تھے وہ روز روز کی ہڑتالوں، دن دہاڑے لٹنے اور مرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بہت بڑا سرمایہ تو گزشتہ5سالوں میں بیرون ملک جا چکا ہے ، بڑے بڑے ادارے ، اپنے دفاتر کراچی سے بنگلہ دیش ، سری لنکا اور دبئی منتقل کر چکے ہیں ۔ 800/ارب روپے ہمارے صنعت کاروں سے بجلی اور گیس کے منصوبے بروئے کار لانے کیلئے صرف کراچی ، لاہور ، فیصل آباد اور ملتان کے ایوان صنعت کے سربراہان سے ملاقات کر کے پورے کئے جاسکتے ہیں۔ اس کیلئے صرف ان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ، بلٹ ٹرین چلانے سے پہلے عوام کو بلٹ سے بچانا ضروری ہے لیکن پولیس اور رینجرز سندھ میں بری طرح ناکام ہیں ۔ آپ کی تقریر بہت اچھی تھی مگر جب تک اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے اس وقت تک عوام مطمئن نہیں ہوں گے ۔ اب میڈیا بھی آزاد ہے بہت جلد عوام کو پتہ چل جائے گا کہ کہاں تک آپ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
تازہ ترین