• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوانح عمری کسی بھی زبان کے ادب میں کسی امتیازی شخصیت کی داستان حیات بقلم خود ہوتی ہے۔ فقط یہ ہی نہیں لٹریچر کی یہ صنف بالعموم عصری سماج و ثقافت، حکومت و سیاست اور معاشرے کے جملہ پہلوئوں کی ایسی تاریخ نویسی بھی بن جاتی ہے جو مرتب کرنا مصنف کا تو مقصد نہیں ہوتا لیکن اپنے حالاتِ زندگی قلمبند کرتے ہوئے اسے کتنے ہی ہم عصروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے واقعات کا تذکرہ کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ اس میں ایک بڑا حصہ شخصیت (جن شخصیات کا تذکرہ سوانح میں ہوتا ہے) نگاری کا ہوتا ہے، جو بذاتِ خود ادب کی ایک اور صنف ہے۔ اس طرح سوانح عمری کا قاری ایک ٹکٹ میں کتنے ہی مزوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ سوانح حیات کا یہ ناگزیر پہلو قلمکاروں خصوصاً اساتذہ اور محققین کے لئے بہت مفید اور دلچسپی کا بڑا سامان بنتا ہے۔

پاکستان میں ہر نوع اور وقت کی سیاسی جماعتوں اور قائدین، حکومتوں، پارلیمان، عدلیہ اور سول و ملٹری انتظامیہ کی الگ الگ اور مجموعی فرائض کی ادائیگی کی شکل میں گورننس کا معیار و اعتبار اور ان کے امکانی نتائج پر خبروں، تجزیوں، تبصروں کا مسلسل جاری سلسلہ ذرائع ابلاغ عامہ کے مجموعی ایجنڈے میں اولین ترجیح کا حامل ہونے کے باعث قومی ابلاغی دھارے کابڑا تشخص ہوتا ہے۔ آمرانہ ادوار حکومت اس میں وقتی کمی تو کر سکتے لیکن اس کے غلبے اور اس میں مسلسل اضافے کو کبھی روکا نہ جا سکا۔ یہ صورتحال (بگڑی ہی سہی) ہمارے قومی جمہوری مزاج کی عکاس ہے۔ اس تناظر میں ملکی حکومت و سیاست کے سات عشروں کی تاریخ میں یہ LOADED(بوجھل) اور آلودہ ملک گیر قومی ابلاغ سے ایک سیاسی اودھم مچا رہتا ہے۔ سیاسی و معاشرتی عدم استحکام کی اس بحرانی کیفیت کے تسلسل نے ملک پر مسلط اسٹیٹس کو (جاری نظام بد) کی تشکیل میں بڑا منفی کردار ادا کیا ہے۔ اس مایوس کن صورت کے باوجود یہ تلخ و شیریں حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ پاکستان ترقی پذیر دنیا میں زور دار سیاسی و عوامی ابلاغ عامہ کا حامل ملک ہے، جہاں مار شل لائوں کے نفاذ میں بھی آمرانہ ادوار کا وہ روایتی اور جبری سکوت طاری نہیں ہو سکا اور یہاں بمطابق آئین اظہار رائے کی مطلوب آزادی نہ بھی سہی، حکام اور حکومتوں پر تنقید اور ان کے غلط اقدامات کے خلاف غبار نکالنے (کتھارسس) کے قومی ذرائع ابلاغ عامہ، عدلیہ، صحافیوں اور خلق خدانے باہم بند نہ ہونے دیے۔ اس شاندار تاریخی ریکارڈ کے باوجود عدلیہ، میڈیااور خود عوامی روئیے بھی تند و تیز تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا قومی ابلاغی دھارا جتنا سرگرم، بلکہ جارح اور پیچیدہ ہے اس میں آزادانہ اظہار خیال و اطلاعات کے اطمینان بخش درجے کے باوجود ہمیں نتیجہ خیز قومی مکالمے کا ڈھنگ نہیں آیا۔

اس سارے پس منظر میں بہت سے سیاسی دانشوروں، سیاست دانوں، صحافیوں، جج صاحبان، بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جرنیلوں اور اپنے وقت میں سرگرم رہنے والے پڑھے لکھے قانون سازوں و آئینی ماہرین کی سوانح حیات اہم قومی موضوعات پر مکالمے کا بڑا سامان فراہم کرتی ہیں۔ ان سے قومی بحثیں چھڑی بھی ہیں، جمہوری کلچر اور ملکی تاریخ کے کچھ متنازعہ پہلو درست سمت میں لانے میں مدد بھی ملی، لیکن اس کی فریکوئینسی بہت کم رہی۔

’’ارشاد نامہ‘‘ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خاں کی سوانح حیات ہے، یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ، ملک میں پیشہ قانون و انصاف کے ارتقاء اور اردو ادب کے سوانح ہائے حیات کے ذخیرے میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ سوانح عمری کے ابتدا میں بیان کئے گئے اوصاف و امتیازات سے لبریز ہے۔ ہماری قومی زبان کے ادب میں یہ حالیہ اضافہ اس لحاظ سے بہت منفرد اور مصنف کی ہمہ گیر شخصیت کا عکاس ہے جس میں ادب کی زیر بحث صنف (سوانح حیات) کے تمام فیچرز کا کمال توازن پیدا کیا گیا۔ جج صاحب نے پاکستان میں عدلیہ جیسے ہم ترین اور حساس شعبے کا احاطہ عشروں کے وسیع تجربے، اعلیٰ تعلیمکی بنیاد پر اپنی بلند درجے کی با جواز خود اعتمادی اور بڑے مدبرانہ انداز میں کیا ہے، یوں ’’ارشاد نامہ‘‘ فقط ان کی اپنی زندگی کی تاریخ ہی نہیں، اس میں جواں نسل خصوصاً پیشہ قانون سے وابستہ نوجوان وکلا اور قانون کے طلبہ کے لئے سیکھنے، سمجھنے اور اپنے پیشے سے متعلق اپنا وژن بڑھانے کا بڑا ساماں موجود ہے۔یہ معاون سے پاکستان کے چیف جسٹس بننے والے ایک ایسے کامیاب ترین پاکستانی شہری کی متاثر کن داستان حیات ہے، جس کی والدہ محترمہ پارٹیشن آف انڈیا سے قبل بیوہ ہو کر پاکستان کی جانب اپنا اچھا بھلا گھر بار چھوڑ کر یتیم بچوں کو لے کر سفر ہجرت پر نکل کھڑی ہوئیں۔ یہ قیام پاکستان پر اجڑے مہاجرین کی بحالی، آبادکاری کے نامساعد حالات میں سے نکلی ایک ایسی روشن کہانی ہے جو عزم صمیم، خود انحصاری، سیلف ڈسپلن اور مسلسل اہداف میں رہنے اور انہیں کامیابی سے حاصل کرتے جانے کے دلچسپ واقعات اور حوصلہ افزا کامرانیوں سے لبریز ہے۔ اس سے جسٹس ارشاد حسن نے فقط خدا پر ہی بھروسے، ان کی پکی سچی پاکستانیت، محنت شاقہ، بے لچک عزم اور اہداف کے حصول کے یقین اور حصولات کا جگہ جگہ پتہ چلتا ہے۔ جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر ظفر علی شاہ کیس میں، برسراقتدار فوجی حکومت کو انتخابات کرانے کی شرط کے ساتھ جاری رہنے کا فیصلہ ان کا ایک غیر مقبول فیصلہ ضرور ہے، جس کا وہ اپنے تئیں دفاع بھی کرتے ہیں، لیکن ہماری تاریخ میں فوجی حکومتوں کے حق میں یہ فیصلے رخصت کی جانے والی حکومت کی زمین سے لگی مقبولیت اور عوام میں فوجی جی ہاں! فوجی حکومتوں کی فوری قبولیت ہی نہیں بلکہ ان کے اقتدار میں آنے پر اطمینان و مسرت کی ملک گیر لہر کے ماحول میں ہوئے۔ جومجوزہ قومی بحث کا غور طلب نکتہ ہے۔ اس میں بہت تسلسل ہے اور ایسے فیصلوں سے قومی مکالمے کے وہ قابل بحث موضوعات نکلتے ہیں جن کا ذکر ناچیز نے اوپر کیا ہے۔ ایسے فیصلوں کے جواز، جج صاحبان کی مہارت و نیت، قومی اور پیشہ ورانہ سوچ میں توازن اور ’’جمہوری حکومتوں‘‘ اور پاپولر سیاسی جماعتوں کی اپنی کھلی آئین شکنی سے پیدا ہونے والے گھمبیر حالات کو زیر بحث لائے بغیر کوئی حتمی اور حقیقی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ’’ارشاد نامے‘‘ کا ایک بڑا خاصہ اس کے اسلوب اور جج صاحب کی علمی اپروچ کا واضح ہونا ہے، جو کسی بھی پیشے کی مہارت ، اعتبار و وقار کو یکتا کر دیتی ہے۔ ’’ارشاد نامے‘‘ میں جج صاحب نے اس کے کئی ثبوت فراہم کئے ہیں۔ جیسے ان کی مدت میں پاکستان میں جوڈیشل اکیڈمی کا قیام ۔بلاشبہ ارشاد نامہ اقبال کے اِس شعر کا عکاس ہے :

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی

تازہ ترین