• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے ہوش و حواس کے ساتھ آج میں ایک راز سے پردہ اٹھا رہا ہوں۔ رازوں کی بےدریغ حفاظت کرنے والوں کو چوکنا ہونے کی ضرورت نہیں۔ آج میں جس راز سے پردہ اٹھا رہا ہوں اس راز کا واسطہ 1947ءمیں پاکستان بننے اور 1971ءمیں پاکستان ٹوٹنے سے نہیں ہے۔ اس راز کا واسطہ ناقابلِ معافی جرم سے نہیں۔ یاد ہے نا وہ گھنائونا جرم جب انتہائی تشویش ناک حالت میں کوئٹہ سے کراچی ماڑی پور ائیرپورٹ پر پہنچنے کے بعد قائداعظم کو گورنر ہائوس پہنچانے کیلئے ایک ناقص پھٹیچر ایمبولنس مہیا کی گئی تھی؟ کس بھاری بھرکم کے کہنے پر بانیٔ پاکستان کے لئے پھٹیچر ایمبولنس مہیا کی گئی تھی؟ یہ ایک تاریخی راز ہے جس سے کسی نہ کسی روز پردہ اٹھا کر دم لوں گا مگر آج نہیں… کئی راز میرے سینے میں دفن ہیں۔ میں خود حتماً دفن ہونے سے پہلے تمام راز ایک ایک کرکے آپ کو بتادوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی بتادوں گا کہ کس ہستی کے کہنے بلکہ حکم پر ایک جاہل، غیرمانوس، اجنبی نشانہ باز کو وزیراعظم لیاقت علی خان کے عین سامنے غیرملکی سفیروں کی صف میں بٹھایا گیا تھا؟ اس نوعیت کے رازوں کے بارے میں جاننے کیلئے مناسب وقت اور وقوع کا انتظار کرنا پڑے گا۔ میرے علاوہ میرے دوچار ہم عمر اور ہم عصر بھی تاریخی راز داں تھے۔ وہ بھی میری طرح بہت کچھ جانتے تھے مگر ان میں میری طرح صبر و تحمل نہیں تھا۔ ایک سیاسی راز سے پردہ اٹھانے کے بعد میرا ایک ہم عصر راز داں پھر کبھی کسی کو دکھائی نہیں دیا۔ ایسا لگتا تھا وہ کبھی اس دنیا میں آیا ہی نہیں۔ ایسے میں بھول کر بھی کسی سرکاری اور حکومتی راز سے پردہ اٹھانے یعنی افشا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آج کا راز میرے اپنے بارے میں ہے۔ آج میں اپنے ایک راز سے پردہ اٹھا رہا ہوں۔ایک لمبے عرصے تک میں ایوانِ صدر اسلام آباد میں خاکروب رہ چکا ہوں۔ میرے اڑوس پڑوس کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے کہ میں روزانہ صبح شام اور کبھی کبھی رات میں ایوانِ صدر کیا کرنے جاتا تھا، وہ کس قسم کی میری ملازمت تھی؟ پوچھنے پر میں پڑوسیوں کو بتاتا تھا کہ میں ایک قسم کا ٹائم کیپر ہوں۔ کام کی نوعیت پوچھنے پر میں ان کو بتاتا تھا کہ ایوانِ صدر میں داخل ہونے والی اور ایوانِ صدر سے باہر جانے والی گاڑیوں کے نمبر، ماڈل، گاڑی میں موجود افراد کی جنس، تعداد اور ایوانِ صدر میں آنے اور ایوان صدر سے جانے کے اوقات ایک مخصوص رجسٹر میں درج کرتا تھا۔

ایک عرصہ تک بات بنی رہی۔ ایوانِ صدر میں کام ملنے یعنی ملازمت ملنے کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ سب مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عامیانہ پیرائے میں مجھے توپ سمجھتے تھے۔ یہاں پر میں آپ سب کو ایک اہم آگاہی دینا چاہتا ہوں۔ کچھ جگہیں، میرا مطلب ہے مقام اور مقام سے میری مراد ہے عمارت، محکمہ جات، دفاتر بڑے حساس ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایسی کسی حساس جگہ ملازمت کرتے ہیں تب آپ کو لازماً چوکنا رہنے کی ضرورت پڑتی ہے، خاص طور پر صحافی بھائیوں سے، چپڑی چپڑی باتیں کرکے وہ آپ سے راز اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ پولیس کی نہ دوستی اچھی، نہ دشمنی۔ اسی طرح صحافیوں کی نہ دوستی اچھی، نہ دشمنی… یہ باتیں میں آپ کو اس لئے بتا رہا ہوں کیوں کہ میں خود صحافی رہ چکا ہوں اور ایک لحاظ سے اب بھی صحافی ہوں۔ صحافی بھائیوں نے آخرکار پتہ چلا لیا کہ میں ایوانِ صدر میں ٹائم کیپر وغیرہ نہیں بلکہ میں خاک روب تھا۔ سب سے سینئر صحافی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ شخص ایوانِ صدر کا بھنگی ہے۔ اسکے پاس کیا خاک کے راز ہوں گے۔

یہیں پر صحافی بھائیوں سے بھول چوک ہو گئی۔ میرے پاس ایوانِ صدر کے غیرسیاسی رازوں کے انبار ہیں۔ مثلاً، ایک صدر صاحب اس وقت تک ہاتھ باندھے وزیراعظم کے سامنے بیٹھے یا اکثر کھڑے رہتے تھے جب تک وہ ایوانِ صدر سے تشریف لے نہیں جاتے تھے۔ ان کا نام میں آپ کو کبھی نہیں بتا سکتا۔ یہ راز ہے۔ ایک صدر صاحب شاور Showerکے نیچے نہانا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ بالٹی میں پانی بھر کر، لکڑی کی چھوٹی سی چوکی پر بیٹھ کر نہانا پسند کرتے تھے۔ ان کا نام میں بتا نہیں سکتا۔ یہ راز کی بات ہے۔ ایک صدر صاحب کو ضرورت سے زیادہ اپنی جان کی پروا تھی۔ سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ایک رات میں کئی مرتبہ بیڈ روم بدلتے تھے۔ کبھی کبھی تو مجھے ان کے دس باتھ روم صاف کرنا پڑتے تھے۔ آپ ان کا نام مت پوچھیں۔ ایک صدر صاحب کو ایوانِ صدر کے ایوانوں میں آدھی رات کے وقت نقاب اوڑھے، کالے لباس میں ملبوس ایک عورت چلتے پھرتے نظر آتی تھی۔ اسے دیکھ کر صدر صاحب کی جان نکل جاتی تھی۔ صدر صاحب کے علاوہ وہ پُراسرار عورت کسی کو نظر نہیں آتی تھی۔ تعویذ گنڈے کرنے والی چڑیل جیسی بڑھیا نے صدر صاحب کو بتایا تھا کہ انہیں دکھنے والی کالے لباس میں ملبوس عورت اصل میں روح تھی۔ اسے نکالنے کے لئے روزانہ دو کالے بکروں اور آٹھ کالے مرغوں کا خون ایوانِ صدر کے اطراف چھڑکتے رہنا پڑے گا۔ جب تک صدر صاحب ایوانِ صدر میں رہے، تب تک تھر تھر کانپتے رہے۔ میں صدر صاحب کا نام آپ کو فی الحال بتا نہیں سکتا مگر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مناسب وقت آنے پر ان صدر صاحبان کے ناموں کو راز رہنے نہیں دوں گا۔ ان کے نام میں آپ کو بتادوں گا۔

تازہ ترین