• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ہاتھیوں کی لڑائی میں سب کا پاؤں آجائے تو نقصان گھاس کا ہی ہوتا ہے۔ جب اَناؤں کے اسیروں کابے ضمیرقیدیوں سے ٹکراؤ ہو جائے تو پھر حشر نشر عوام کا ہی ہوتا ہے۔ جب غریب کا خون ارزاں ہو جائے، انصاف پاؤں تلے روندا جائے ، قوم نام کا لفظ ہجوم بن جائے تو پھر مجمع گیر ہر طرف چھا جاتے ہیں۔ جگہ جگہ بندر تماشے دکھاتے مجمع لوٹتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب مجمع گیروں کی بات چل نکلتی ہے تو لفظوں کی شعبدہ بازی اپنی وقعت کھونے لگتی ہے حالات کا دھارا ایسا رنگ بدلتا ہے کہ لفظوں کے لگے گھاؤ بھرتے بھرتے زندگی گزر جاتی ہے لیکن درد کا احساس قبر تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ گزرے وقت کا پچھتاوا سائے کی طرح آپ کا پیچھا کرتا ہے کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ انسان زندگی میں جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے لیکن عقل پھر بھی نہیں آتی کہ اوپر تلے ضمنی انتخابات سے جو جنگ شروع ہوئی تھی ڈسکہ انتخابات میں دانستہ بد انتظامی، ہنگامہ آرائی کے بعد خان اعظم کی الیکشن کمیشن پر چڑھائی اور عدم اعتماد، یوسف رضا گیلانی کا سینیٹر منتخب ہونا، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں 007 جادوئی ووٹوں کی ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں چھلاوے کی طرح اچھل کود ، ٹھپہ نام پر لگا ہے یا ڈبے کے اندر ووٹ ووٹ ہی ہوتا ہے جعلی ہویا اصلی۔ جس کے ڈبے میں نظر آئے اسی کا تصور کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کون سی جدید سائنس ہے کہ نام پر لگا ٹھپہ نامنظور، سامنے لگا منظور، درمیان میں لگا مسترد۔ من پسند جمہوریت کے یہ انوکھے انداز پہلے کبھی دیکھے تھے نہ آئندہ کبھی دیکھنے کو ملیں گے۔ اس سے آگے جو جدید انتخابی طریقہ واردات (الیکٹرانک ووٹنگ) نظر آئے گا کہ کوئی ووٹر ڈبے کے قریب آئے نہ آئے ووٹ خود ہی پھدک کر من کی مرادیں پوری کرنے والے امیدوار کے ڈبے سے نکل آئے گا۔

خان اعظم کے کرشمہ ساز دور جمہوریت میں تو آوے کا آواہی بگڑ چکا ہے۔ پی ڈی ایم کا حال تو سب نے دیکھ لیا ، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ چلے تھے خان اعظم کی حکومت گرانے، جمہوریت بچانے، غریبوں کی ہمدرد نما پی ڈی ایم اپنا ہی دھڑن تختہ کروا بیٹھی۔ ایک طرف بھان متی کا کنبہ ہے تودوسری طرف چوں چوں کا مربہ۔ رگڑا لگا ملکی معیشت کے نام پر غریب کی دکان کو۔جائیں تو جائیں کہاں؟ اس ہائبرڈ نظام نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ‘ دعوے ہند سندھ فتح کرنے کے‘ کشمیر بھی گنوا بیٹھے ۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ جب اپنا ہی گھر ٹھیک نہ ہو تو دنیا ہماری بات کیسے سنے گی۔ لیکن سوال بڑا مشکل جواب بڑا آسان ہے کہ آخر اس گھر کی بربادی کیسے ہوئی، کس نے کی اور کیوں کی۔ اس تباہی و بربادی کو آئندہ کیسے روکا جاسکتا ہے۔ جب پارلیمنٹ مفلوج ہو،عدلیہ مجبو ر ہو‘ قانون گھر کی لونڈی ہو‘ آئین موم کی ناک ہو‘ معیشت کا پہیہ جام ہو‘ عوام مفلوک الحال ہوں‘ حکمرانوں میں عدم برداشت ہو‘ ہر طرف سیاسی انتشار ہو تو ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ قومی اتحاد ویک جہتی سے آگے بڑھا جائے ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ خصوصاًگزشتہ تین ماہ میں حکومتی ناکامی‘ اپوزیشن کی بدنامی کا مجموعی تجزیہ کیا جائے تو عوام اس ہائبرڈ نظام سے مکمل طور پر بے زار ہوچکے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے جس بُری طرح ہماری معیشت کا شکنجہ کس رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مالیاتی اختیارات گروی رکھ کر نظام حکومت چلا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم نے جہاں حکومتی بے بسی ظاہر کردی ہے وہاں بزنس کمیونٹی میں بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت صنعتوں کو حاصل ہر قسم کی مراعات ختم یا محدود کر دی جائیں گی یہ سارا کھیل آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر قرضے کی عوام سے پوشیدہ شرائط کے پس منظر میں رچایا جارہا ہے۔ 2018 ءکے بعد خان اعظم کی حکومت سے معاشی بہتری کی جو امید رکھی جارہی تھی وہ سیاسی محاذ آرائی کی آڑ میں انہوں نے خود ہی روند ڈالی۔ حکومت کو عقل آئی نہ ہی اپوزیشن ان معاملات میں سنجیدہ ہوئی۔ صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے معیشت کی تباہی کے جو سودے کئے جارہے ہیں عوام کی مزید چیخیں نکلوا دیں گے۔ تباہی کایہ سودا آنے والے چند دنوں میں بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔ جب عوام چیخ پکار کرتے ہوئے خود ہی سڑکوں پر نکل آئیں گے اور انہیں واپس بھیجنا آسان نہیں ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین