• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنی کرسی سنبھالنے کے پہلے دو دن میں ایک عالمی ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ انہوں نے سات جون کی شام حلف اٹھایا، حلف اٹھانے کے فوراً بعد انہیں وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ بجٹ سازی پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے اور مزید تاخیر کی گنجاگش نہیں ہے۔ ڈار صاحب اسی شام بجٹ بنانے میں مصروف ہوگئے۔ تمام رات کام کرتے رہے، آٹھ جون کا تمام دن اور تمام رات بھی کام کیا۔ صرف نماز اور کھانے کا وقفہ ہوتا رہا۔ ایک دن اور دو راتوں کی مسلسل محنت کے بعد9جون کی صبح چھ بجے تک بجٹ تیار ہوچکا تھا۔ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے مسلسل کئی گھنٹے تک جاگنے کے بعد اپنی حکومت کو درپیش پہلے چیلنج کا سامنا بڑی ہمت سے کیا۔21گھنٹے کی مسلسل مغز کھپائی میں اسحاق ڈار کے کانوں میں وزیر اعظم نواز شریف کے وہ تمام وعدے گونجتے رہے جن کے اعلان پرجلسوں میں بھرپور تالیاں بجائی جاتی تھیں۔ ایک طرف نواز شریف کے یہ وعدے تھے کہ وہ نوجوانوں کو چھوٹے قرضے دیں گے دوسری طرف غیرملکی قرضوں کے پہاڑ تھے ۔اسحاق ڈار کو غیر ملکی قرضوں کے طویل پہاڑی سلسلے میں تنگ اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر نواز شریف کے وعدوں کی تکمیل کرنی تھی۔ انہیں برباد اور ویران معیشت کے ملبے سے خوشخبریوں کے موتی تلاش کرنے تھے۔21گھنٹے کی مسلسل محنت کے بعد نو جون کی صبح وہ وزارت خزانہ سے باہر آئے تو ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں لیکن چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ نجانے وہ کن کن پیچیدگیوں کو شکست دے کر نکلے تھے لیکن انہیں یقین تھا کہ بارہ جون کو جب بجٹ کا اعلان ہوگا تو کچھ بری خبروں کے ساتھ ساتھ وہ کچھ اچھی خبریں بھی بریک کریں گے۔ اسحاق ڈار نے صرف ایک دن اور دو راتوں میں بجٹ بنا کر ایک عالمی ریکارڈقائم کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کی تیاریاں تو کئی دنوں سے جاری تھیں لیکن باقاعدہ بجٹ سازی تو وزارت خزانہ میں ہی ہوتی ہے۔ مجھے بجٹ میں شامل بری خبروں اور اچھی خبروں کی تفصیل کا کچھ پتہ نہیں۔ تفصیل تو بارہ جون کو سامنے آئے گی لیکن یہ پہلو قابل اطمینان ہے کہ نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی محنت اور شب بیداری کے ذریعے بیوروکریسی کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب کام چوری سے نوکری نہیں ہوگی۔ ڈار صاحب چاہتے تو بڑی آسانی کے ساتھ بجٹ کی تشکیل کے لئے چار یا پانچ دن کی تاخیر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انتہائی کم وقت میں بجٹ کی تشکیل پر وہ اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ امید ہے کہ وہ عوام کے متعلق نرم فیصلے اور خواص کے متعلق سخت فیصلے کریں گے۔ بیوروکریسی کی فضول خرچیاں کم کریں گے اور خفیہ اداروں کی طرف سے اربوں روپے کے سیکرٹ فنڈز کے استعمال پر بھی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم نافذ کریں گے۔ اسحاق ڈار کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے ،خواجہ محمد آصف کے پاس بھی کوئی الہٰ دین کا چراغ نہیں۔ یہ صاحبان دن رات بھی ایک کردیں تو پلک جھپکتے میں مہنگائی کم کرسکتے ہیں نہ لوڈ شیڈنگ ختم کرسکتے ہیں، مسائل کے خاتمے کے لئے ہم سب کو محنت اور ایمانداری سے کام کرنا ہوگا لیکن افسوس کہ ہم ایسا نہیں کررہے ۔ٹھیک ہے اسحاق ڈار نے 21گھنٹے میں بجٹ تو بنادیا لیکن آگے کیا ہوگا؟
کیا آپ نے غور کیا کہ سات جون کو وفاقی کابینہ نے حلف اٹھایا اور اسی رات شمالی وزیرستان میں امریکہ نے ایک ڈرون حملہ کردیا۔ نئی حکومت نے اس ڈرون حملے پر امریکہ سے سخت احتجاج کیا لیکن کیا نئی حکومت یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں گی کہ امریکہ کو پاکستان کے اندر طالبان اور القاعدہ والوں کی موجودگی کی اطلاع کیسے ملتی ہے؟ یہ اطلاع امریکہ کو مل جاتی ہے ہمارے خفیہ اداروں کو کیوں نہیں ملتی؟کہیں وہ خود یہ اطلاع امریکیوں کو تو نہیں دیتے؟ یہ سوال اس لئے اہم کہ امریکی صحافی ڈیوڈ ای سینگر کی 2012ء میں شائع ہونے والی کتابConfront and concealکے صفحہ نمبر136پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ اوباما دور میں پاکستان کے اندر جتنے بھی ڈرون حملے ہوئے ان کی منظوری براہ راست پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت دیتی رہی۔ وقت آگیا ہے کہ اصل حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں۔ پاکستانی فوج کی قیادت اور اس کے ماتحت اداروں سے گزارش ہے کہ اگر وہ واقعی انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آئین و قانون کی بالا دستی میں سول حکومت اور عدلیہ کی مدد کریں۔سب جانتے ہیں کہ ایک فوجی حکمران کے دور میں شمسی ائیر بیس امریکہ کے حوالے کیا گیا۔شمسی ائیر بیس امریکہ کے زیر استعمال نہیں لیکن کم از کم سول حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ ڈرون حملوں کے لئے کون کہاں سے کیسے امریکہ کی معاونت کررہا ہے اور کتنا معاوضہ وصول کررہا ہے؟ اس معاملے میں پاکستان کے دفتر خارجہ اور جی ایچ کیو کی ایک پالیسی ہونی چاہئے۔
نئی حکومت قائم ہوتے ہی سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں تیزی آگئی ہے لیکن دوسری طرف کراچی میں امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی ہے۔مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی ہے۔نوجون کو ا توار کے دن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھایا اور اسی دن خضدار کی سڑکوں پر دو مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں۔سب جانتے ہیں کہ یہ لاشیں کس نے پھینکیں؟ ایک لاش رحیم داد ولد دین محمد کی تھی جو نوشکی کا رہنے والا تھا۔ اس کی جیب سے ایک پرچی نکلی جس پر لکھا تھا کہ رحیم داد کا تعلق بلوچستان لبریشن آرمی سے تھا۔ دوسری لاش ایک بوڑھے آدمی کی تھی جس کی شناخت ممکن نہ ہوسکی۔رحیم داد کو اس لئے قتل کردیا گیا کیونکہ وہ پاکستان کا دشمن تھا۔ کاش کہ اسے عدالت میں پیش کرکے پاکستان کا دشمن ثابت کیا جاتا۔رحیم داد کو مارنے والے یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا آئین توڑنا بھی ملک دشمنی اور غداری ہے لیکن جب یہ ملک دشمنی پرویز مشرف کرے تو اس کا مقدر اڈیالہ جیل نہیں بلکہ چک شہزاد کا فارم ہاؤس بنتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ رحیم داد کسی دشمن کا ایجنٹ ہو لیکن کیا مشرف نے شمسی ائیر بیس امریکہ کو نہیں دیا تھا؟ مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کیس سماعت سے معذوری ظاہر کرچکے ہیں ،مدعی وکیل اسلم گھمن مقدمے کی پیروی سے انکار کردیتا ہے اور ساتھی وکلاء بشارت اللہ اور مجیب الرحمان کو اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک آئین شکن کو سزا دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ نئی حکومت یاد رکھے کہ اچھا بجٹ پیش کرنے سے ملک میں استحکام پیدا نہیں ہوگا۔ استحکام کے لئے قانون کی بالا دستی ضروری ہے۔ رحیم داد اور پرویزمشرف کے لئے ایک ہی قانون ہونا چاہئے اگر آپ مشرف کو سزا نہیں دے سکتے تو پھر طالبان کو دہشتگرد کہنا چھوڑ دیں پھر تو سب کو آئین توڑنے کا حق ہے۔اگلے چند مہینے بہت اہم ہیں، بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کو قوم پرست عسکریت پسندوں سے لڑایا جائے گا۔ کراچی میں قتل و غارت بڑھے گی۔ میڈیا کو میڈیا سے لڑایا جائے گا۔ کالے دھن سے لوگوں کو خریدنے کے لئے مشہور شخصیات میڈیا کے ا یک حصے کو خرید کر سیاست و صحافت میں گندگی پھیلانے کی کوشش کریں گی۔ سازشیں ختم نہیں ہونگی لیکن نئی حکومت کو پتہ لگانا ہوگا کہ سازشوں کی منصوبہ بندی کہاں ہورہی ہے اور ان منصوبوں کے لئے کالا دھن کہاں سے آرہا ہے ا ور اس انڈر ورلڈ کا اصل ڈان کون ہے؟
تازہ ترین