شاہ زیب قتل کیس میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گزشتہ جمعہ کو شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت سنائی تو مجرموں نے عدالت سے باہر نکلتے ہی مسکراہٹوں کے ساتھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے بڑے فخر سے وکٹری کا نشان بنایا جیسے کہ انہیں کوئی بڑی کامیابی مل گئی ہو۔ اُن کے چہروں پر نہ کوئی پشیمانی تھی اور نہ ہی کوئی شرمندگی۔ سندھ کے انتہائی با اثر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے قاتلوں کا یہ رد عمل دیکھ کر ایسا محسوس ہواجیسے وہ پاکستان کے کریمنل جسٹس سسٹم کا منہ چڑا رہے ہوں۔ جیسے کہ اُن کو یقین ہو کہ یہ سزا محض ایک کاغذی کارروائی ہے اور وہ بہت جلد قید سے باہر ہوں گے۔ ہو سکتا ہے وہ حکومت اور صدر سے امید لگائے بیٹھے ہوں کہ وہ ان کی سزا معاف کردیں گے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ان کی سزا قائم بھی رہے تو اُن کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں کیوں کہ سزائے موت پر اب تواسلامی جمہوریہ پاکستان میں عمل ہو ہی نہیں رہا اور یہ کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران دو افراد کے علاوہ کسی کو تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا۔ ویسے بھی جیل میں ان کے ساتھ VIPجیسا سلوک ہوتا ہے۔محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بڑے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ان قاتلوں کے لیے ایک انسان کی جان لینا، ایک ماں سے اُس کے لخت جگر کو ہمیشہ کے لیے چھیننا، ایک باپ کو اُس کے مستقبل کے سہارے سے محروم کرنا سب ایک ایڈونچر تھا۔ یہ عدالتی کارروائی اُن کے لیے ایک ایسے ہی ایڈونچر کا حصہ ہے جس کا اختتام اُن کو یقین ہے کہ اُن کے حق میں ہی ہوگا اور جب وہ کل جیل سے رہائی پا کر باہر نکلیں گے تو لوگ اُن کو ایک terror کے طور پر دیکھیں گے جیسا کہ وہ بچپن سے اپنے بڑے بڑے ہیروز کو فلموں میں دیکھتے رہے ہیں۔ یہ نوجوان قاتل خود کیا سوچتے ہیں یا وہ اپنے اس سنگین جرم اور گناہ کبیرہ سے شرمندگی اور پچھتاوے سے کیوں عاری ہیں یہ بحث اپنی جگہ مگر اُن کا سزائے موت کی سزا سننے کے بعد میڈیا کے سامنے وکٹری کا نشان بنانا جرائم پیشہ افراد، ٹارگٹ کلرز، اغوا کاروں اور جرم کے دنیا کے مافیا کے لیے بڑے حوصلے کی بات ہے۔
صدر زرداری نے اپنے پانچ سالہ دور میں سزائے موت پر عمل درآمد کو بیرونی دنیا کی خوشنودی کے لیے روکے رکھا باوجود اس کے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق سزائے موت (قصاص) میں معاشرہ کی زندگی ہے۔ یعنی جب قاتل کو پھانسی دی جائے گی یا اُس کی گردن کو اُس کے تن سے جدا کیا جائے گا تو یہ دوسروں کے لیے نشان عبرت اور سبق آموزہوگا اور معاشرہ ایسے سنگین جرائم سے پرہیز کرے گا۔ اگر سالہا سال سے جیلوں میں بند سزا یافتہ قاتلوں اوردہشت گردوں کو پھانسی نہیں دی جائے گی تو پھر قتل و غارت اور خون خرابہ کیسے رکے گا۔ اگر شاہ زیب کے قاتلوں کو سزا تو سنا دی جائے گی مگر اُس سزا پر عمل درآمد نہیں ہو گا تو پھر آئندہ ایسی درندگی کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔اب یہ موجودہ حکومت اور خصوصاً وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ذمہ داری ہے کہ عدلیہ کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جائے اورصدر زرداری کے اُس فیصلہ کو ختم کیا جائے جس کی وجہ سے گزشتہ پانچ سال سے سینکڑوں مجرموں کو عدالتی فیصلوں کے باوجود سزائے موت نہیں دی گئی۔حال ہی میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے بھی یہی سوال اُٹھایا تھا کہ جب سزا یافتہ قاتلوں اور دہشتگردوں کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو گا تو معاشرے سے جرائم کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔اس وقت پاکستان کانقشہ ایک ایسی ریاست کا ہے جہاں سزا و جزا کا کوئی concept نہیں، جہاں چوروں اور لٹیروں کو ملک کے خزانے کو حفاظت پر مامور کیا جاتا ہو، جہاں ٹارگٹ کلر، دہشتگرد اور مافیا بے خوفی کے ساتھ کھلے عام پھرتے ہوں، بے خوف اپنی کارروائیاں کرتے ہوں، چند ہزار روپے کے موبائل کے لیے دوسروں کی جان لے لی جاتی ہو جبکہ عام شہری سہمے سہمے رہتے ہوں، انہیں انصاف نہ ملتا ہو، ان کے قاتل کھلے عام دندناتے پھرتے ہوں۔ اس سب کو بدلنے کے لیے اب نئی حکومت کو وہ سب کچھ بدلنا ہوگا جس کا گزشتہ پانچ سال اس ملک میں رواج رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اسلام کی اُن تعلیمات سے بہرہ ور کرے جن کے مطابق ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، ایک مسلمان کے مال اور اُس کی جان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے جبکہ اسلام تو غیر مسلم کے قتل پر بھی سزائے موت کی سزا تجویز کرتا ہے۔ قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے لیے جہنم کا سودا کرتا ہے۔اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو قاتل اپنے جرم پر دلیری اور اللہ کی پکڑ سے بے خوفی کا اُسی طرح اظہار کریں گے جس کا مظاہرہ شاہ زیب کے قاتلوں نے پوری دنیا کے سامنے کیا۔