• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علمی ہو یا عسکری، اقتصادی ہو یا سائنسی عروج اور زوال جب بھی جو بھی آئے، آتا پورے جمال و جلال کے ساتھ ہے۔ کثیر الجہات ہوتا ہے جس سے کوئی شعبہ حیات محفوظ نہیں رہتا۔ جو قوم یا تہذیب کلک کر جائے، اس کا اچھا برا سبھی کچھ سپرہٹ قرار پاتا ہے یہاں تک کہ گٹر کی صفائی کے بعد بندہ برآمد ہو تو سیل فون پر محو گفتگو ہوتا ہے اور ٹریکٹر چلاتا ہوا لڑکا بھی لنڈے کے ’’برانڈڈ‘‘ کپڑوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔آج وہ وقت ہے کہ چالیس سال کا بھرپور آدمی بھی اگر یہ کہے کہ ’’ہمارے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا‘‘ تو وہ سو فیصد سچا نظر آتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب ’’ٹیلکس‘‘ متعارف ہوئی، پھر ’’پیجر‘‘ نامی اک جادوئی کھلونا لانچ ہوا، ’’فیکس‘‘ نے دھوم مچائی جو اب زمانہ قبل مسیح کی کوئی شے دکھائی دیتی ہے اور اب سیل فونوں کی ساحری عروج پر ہے۔ ہم ’’کھل جا سم سم‘‘ میں پھنسے رہے، غیروں نے ’’سم‘‘ میں سب کچھ سمو کر رکھ دیا حالانکہ بھاری اکثریت آج بھی نہیں جانتی کہ "SIM"کن تین لفظوں کا مخفف ہے۔خوراکیں بدل گئیں، پوشاکیں بدل گئیں، زبانیں بدل گئیں، علاج بدل گئے، ذرائع آمد و رفت تبدیل ہو گئے..... نہیں بدلے تو ہم ڈھیٹ نہیں بدلے۔ ہمارے موضوعات، سوچ، کرتوت تبدیل نہیں ہوئے۔اخباروں کا ڈھیر نہیں، دراصل آئینوں کا ڈھیر ہے جو مختلف زاویوں سے مجھے میرا چہرہ دکھا رہا ہے کہ میرے پاس آرائشی، زیبائشی، مصنوعی، ظاہری اور جعلی ’’تبدیلی‘‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ہر نئی ایجاد کی طرف لپکتے ہوئے ہم اندر سے وہی ہیں جنہوں نے ٹریکٹر کی آمد پر اسے اپنے خلاف ’’سازش‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا ’’یہ ہماری زمینیں جلا دے گا‘‘۔ برصغیر میں ریل کے لئے پٹڑی بچھنے لگی تو پیٹنے لگے کہ فرنگی لوہے کے پٹے ڈال رہا ہے تاکہ ہمارا ملک گھسیٹ کر ولایت لے جائے۔ ہینڈ پمپ دیکھا تو اسے ’’بمبا‘‘ کا خطاب بخشا.... فکری تخلیقی طور پر آج بھی وہیں چٹانوں کی طرح جمے ڈٹے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ آج سے صرف پچاس سو سال بعد کی دنیا کیسی ہو گی اور اس میں ہمارا مقام کیا ہو گا۔’’تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر‘‘بات چلی تھی اخبارات کے آئینوں سے جن میں مجھے اپنا اجتماعی چہرہ کچھ یوں دکھائی دیتا ہے۔’’سینیٹ میں پی ڈی ایم تقسیم۔ ن لیگ سمیت 5اپوزیشن جماعتوں نے الگ گروپ بنا لیا۔ پی پی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس۔‘‘’’سٹاک مارکیٹ پھر شدید مندی کا شکار، انڈیکس 700 پوائنٹس گر گیا۔‘‘’’نیپرا کا پن بجلی کے ٹیرف میں 56پیسے فی یونٹ کا اضافہ‘‘’’قومی اسمبلی میں حکومت اپوزیشن آمنے سامنے‘‘’’ جی ڈی پی ٹیکس کا ہدف نامکمل، معیشت دبائو کا شکار‘‘’’ٹینکرز مالکان کی پٹرول مصنوعات کی ترسیل بند کرنے کی دھمکی‘‘’’کسانوں سے گندم نہیں خریدی جا رہی‘‘ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔یقین نہیں آتا کہ 8ویں صدی کے بعد تک بھی مسلمانوں کے اطوار، عادات، اسلوب، خصائل، خیالات اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کو حیرت و حسرت سے دیکھا جاتا اور افسانہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے جن نائٹس (KNIGHTS) کی شجاعت پر داستانیں لکھی گئیں، ان کی زرہ بکتریں، ہتھیار، اوزار اور جنگی حکمت عملیاں مسلمان مجاہدوں سے مستعار لی گئی تھیں۔ کبھی مسلمانوں کے علم و ہنر میں اہل یورپ کیلئے بے انتہا کشش تھی جو یورپی نشاۃ ثانیہ کے بعد تک بھی موجود رہی۔ مسلمان جدید ریاضی، دوا سازی، جراحی، فلکیات، کیمیا، معاشرہ بندی، ایجاد اختراع میں ممتاز ترین تھے۔امویوں کی حکومت میں بھوکوں کیلئے کھانا اور بے گھروں کیلئے ٹھکانہ ریاست کی ذمہ داری تھی جبکہ آج 2021میں ہم کھانے ٹھکانے کیلئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور چند لنگر خانے، پناہ گاہیں بنا کر بغلیں بجا رہے ہیں۔ اور تو اور شہر میں پانی پہنچانے کیلئے وہ طریقہ کار استعمال کیا گیا جو فارس سے انسپائرڈ تھا۔ دمشق کے بعد آبپاشی کا یہ نظام شہر شہر پھیلا دیا گیا جو بعد ازاں ہسپانوی عیسائیوں کے ذریعہ جدید دنیا تک پہنچا۔’’اے رب، میرے علم میں اضافہ کر‘‘ (القرآن)کبھی علم کی پیاس تھی آج مال کی ہوس ہے تو فرق بھی صاف ظاہر ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین