• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مارچ 2021پوری دنیا، خصوصاً جنوبی ایشیامیں تبدیلیوں کا محور رہا۔ ٹرمپ کے بعد امریکہ میں جوبائیڈن انتظامیہ تمام شعبوں میں اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ چینی اور امریکی حکومت کے درمیان تجارت سمیت دیگر تنازعات پر بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔ بحیرۂ جنوبی چین تنازعہ پرجو بائیڈن نے تبصرہ کیا کہ وہ چین مخالف نہیں لیکن چین سے عالمی جمہوری قواعد کی پاسداری چاہتے ہیں۔ 14مارچ کو کواڈ (Quad)کے ایک اہم اجلاس میں امریکہ، ہندوستان، آسٹریلیا اور جاپان نے چینی توسیع کو روکنے کے لئے باہمی حکمت عملی پر غور کیا، یہ ایک نئی قسم کی سرد جنگ ہے۔ سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ میں شامل قوموں کو ماسکو حکومت کی آہنی دیوار کا سامنا تھا، اس بار مغربی دنیا کا مقابلہ چین سے ہے، جو اوپن مارکیٹ، سرمایہ داری نظام اور معیشت کا سرخیل ہے۔ چین سب سے طاقتور اور دولت مند ہونے کا عزم رکھتا ہے۔ نیٹو اور کواڈ جیسے امریکی اتحادوں کو دوبارہ متحرک کیا جارہا ہے۔ ٹرمپ حکومت کے برعکس، امریکہ قائد کی حیثیت سے عالمی سیاست میں دوبارہ متحرک ہورہا ہے۔

پاکستان، ایران، ترکی اور چین پر مشتمل ایک نیا اتحاد تشکیل پا رہا ہے۔ چین نے ایران کے لئے 400 بلین ڈالر کا ترقیاتی پیکیج دیا۔ اس سے قبل چین 62 بلین ڈالر سی پیک اور اوبورکے لیے مختص کر کے پاکستان کے ساتھ تاریخی شراکت میں داخل ہوچکا ہے۔ پاکستان اور ترکی نے متعدد ثقافتی، تکنیکی اورا سٹرٹیجک منصوبوں میں اشتراکِ عمل کیا ہے۔ آذربائیجان آرمینیا تنازعہ میں اس رشتے کی مضبوطی کھل کر سامنے آئی، اب ترکی بھی اس بلاک میں شامل ہو رہا ہے ۔ تہران ’استنبول‘ اسلام آباد ریل نیٹ ورک کا آغاز اس تعاون کی ایک زندہ مثال ہے۔ پاکستان اس اتحاد میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ان سفارتی تعلقات کے فروغ سے چین اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے جس کا یورپ اور امریکہ بھی مقابلہ نہیں کرپائیںگے۔ اگر آذربائیجان اس بلاک میں شامل ہوتا ہے تو ان ممالک کا وسطی ایشیا کی منڈیوں میں قوی اثرورسوخ ہوگا۔حیرت انگیز طور پر، بھارت اور پاکستان نے مارچ میں مشترکہ بیانات میں 2003 کے سیز فائر معاہدے پر عملدرآمدکی تصدیق کی۔ متحدہ عرب امارات نے انکشاف کیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک خفیہ امن روڈ میپ طے پا چکا ہے۔ اس اعلان کے بعد، فوجی آپریشنل سربراہوں نے میٹنگز میں فائر بندی کے ضوابط طے کیے۔ عمران خان کے کورونا پازیٹو آنے کے بعد نریندر مودی نے خط لکھ کر ان کی خیریت دریافت کی۔ اس کے بعد، اطراف سے امن اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیاگیا۔ سندھ طاس معاہدے پر بھی پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس بات کا اشارہ بھی دیا گیا کہ کشمیر سے متعلق تجارتی اور سفارتی مذاکرات کا دوبارہ آغاز اسلام آباد اور نئی دہلی کا اگلا ایجنڈا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ نے دونوں ممالک کے کامیاب دورے کیے جس پر کِنگ شیخ محمد نے انہیں مبارکباد پیش کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا اس سے کیا مفاد جڑا ہے؟ متحدہ عرب امارات سعودی عرب کی سخت سفارتی پالیسیوںکی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ایک سرکردہ ملک بن کر ابھراہے۔ امریکہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن معاہدے کو فروغ دینے میں پیشرفت کرے تاکہ افغانستان میں جنگ مخالف کوششوں کو تقویت مل سکے، یہ ایک اور چیلنج ،جو بائیڈن کو درپیش ہے۔

کئی برسوں سے، واشنگٹن پاکستان سے ’ڈو مور‘کا متقاضی رہاہے۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستانی حکومت کرزئی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں طالبان کی مدد کر رہی ہے کیونکہ کابل ہندوستان کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کر رہا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ بات ثابت ہوگئی کہ کرزئی افغان حکومت،طالبان کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے میں ناکام رہی اور پائیدار امن کی کلید پاکستان اور قبائلی پٹی کے لوگوں کے ساتھ بنا کے رکھنے میں مضمر ہے۔بائیڈن انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے مابین سفارت کاری کو افغانستان میں امن سے مشروط سمجھتی ہے۔ متحدہ عرب امارات امریکہ کی طرف سے کام کر رہا ہے جو پاکستان اور بھارت کو ٹیبل پر لائے گا تاکہ امریکی افغانستان میں بہتر پوزیشن میں آ سکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا فی الوقت کسی تنازعے کا متحمل نہیں، حتیٰ کہ طالبان بھی نہیں۔

چین کو ایشیا میں اپنی توسیع کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ تجارتی، ترقیاتی اور سفارتی تعلقات کے عالمی پروگرام میں تہران اس کادوسرا اتحادی ہے۔دوسری طرف امریکیوں کوبھی افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ اور مذاکرات کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ چین امریکہ اور یورپ کے اندازوں سے کہیں آگے بڑھ رہا ہے، غیر جانبدار تجزیہ کے مطابق دنیا کو آج چین کی اقتصادی ترقی، تجارت اور تکنیکی مہارتوں سے مستفید ہونے کی ضرورت ہے۔ژی جن پنگ کا وژن، دنیا کو جوڑنے اور غربت کے خاتمے کے ذریعے معاشی عروج پر پہنچنا ہے۔ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت، ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جبکہ امریکہ اب بھی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔ یہ تمام ممالک اپنے قومی ایجنڈے کو آگےبڑھانے کے لئے پاکستان اورجنوبی ایشیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تاریخی وقت ہے اوراب جو واقعات رونما ہورہے ہیں، ان پر آنے والے عشروں تک ردِ عمل آتا رہے گا۔ ان طاقتور ممالک کے مابین طاقت کی جدوجہد اربوں لوگوں کی تقدیر کا تعین کر سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، جنوبی ایشیا اور خطے کی صورتحال کلائیڈوسکوپ کی طرح ہے اورہر گزرتے دن کے ساتھ نئے زاویے ابھر رہے ہیں۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین