• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت چراغ کی روشنی میں یہ سطور لکھ رہا ہوں،ایسا نہیں ہے کہ میں غاروں کے زمانے کی کسی بستی سے آپ سے مخاطب ہوںبلکہ یہ میرا آبائی گاؤں درملک کوہاٹ پختونخوا ہے ،جس کی یونین کونسل میں تیل اور گیس کے 6کنویں ہیں جہاں سے یومیہ کروڑوں روپے کا تیل اور گیس نکالی جا رہی ہے ،گویا یہ پاکستان کی مال دار ترین یونین کونسل ہے، لیکن آئین کے مطابق اس علاقے کورائلٹی تو درکنار کہ گیس جو یہاں کی ملکیت ہے وہ بھی نہیں ملتی، 24 گھنٹے میں بمشکل یہاں کے لوگوں کودن کے اوقات میں کم پریشر کے ساتھ صرف 6سے8 گھنٹے گیس نصیب ہوتی ہے، گویا اپنی ملکیت ہونے کے باوجودیہاں کے لوگ تیل اور گیس کی رائلٹی سے جہاں محروم ہیں وہاں کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں کروائے جا رہے ۔ ہم اندھیروں کا ذکر کررہے تھے، یہ اندھیرے اس صو بے کے اس گاؤں میں ہیں ، جو صوبہ پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے65فیصد حصے کا منبع ہے۔ پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 6444میگاواٹ ہے جس میں صرف پختونخوا کی پیداوار 4200میگاواٹ ہے۔ اس کے باوجود راقم نے کوہاٹ،مردان، اور صوابی میں ہر تین گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ دیکھی ۔او جی ڈی سی کے مطابق اس ادارے نے پختونخوا سے گزشتہ 17برسوں میں 523ارب روپے کا تیل اور گیس نکالی ہے ، پختونخوا میں گیس کے کل ذخائر 19ٹریلین معکب فٹ ہیں اور تیل کے کل ذخائر 600 ملین بیرل ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تیل پیدا کرنے کی صلاحیت 93 ہزار بیرل یومیہ ہے جس میں سےپختونخوا سے 53ہزار بیرل تیل یومیہ نکلتاہے جو پاکستان کی کل پیداوار کا 54فیصد ہے۔ تین سال پرانے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے لیول پر قدرتی گیس اور ایل پی جی پیدا کرنے کی صلاحیت بالترتیب 17اور 25فیصد ہے۔ماہرین کے مطابق اس صلاحیت میں اب بہت تیزی سے اضافہ ہو چکا ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ پورے صوبے بالخصوص کوہاٹ اور کرک میں اگر توجہ دی جائے صرف تیل اور گیس سے پورے ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے ،یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ ہم پانی کیلئے کنواں کھودتے ہیں توتیل نکل آتا ہے ۔مگر ان وسائل کو زیر زمین ہی رہنےدینے کی سازشیں کارفرما ہیں،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان ذخائر سے مالامال علاقے ترقی کا شاہکار ہوتےمگر انہیں اپنی گیس اور بجلی میں سے اتنا بھی حصہ نہیں دیا جاتا کہ وہ گزر بسر کر سکیں ۔ حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک عرصے سے کرک کے لوگ اپنے حق کیلئے لڑتے آئے ہیں، اب کوہاٹ کے اس گاؤں درملک کے لوگ بھی ایک ایسے ہی احتجاج کا پروگرام بنانے پر مجبور ہیں، شاید رمضان المبارک میں یہ بھی لوگ سڑکوں پر نظر آئیں ۔ درملک یونین کے محنت کش اور غیور باشندوں کے علاقے والٹی ، غورزندی ، اور اوتی میں تیل و گیس کے 6کنویں ہیں جہاں سے روزانہ کروڑوں روپے کی تیل اور گیس نکالا جاتا ہے لیکن اس علاقے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے سوئی بلوچستان کے باشندے تو گیس سے محروم ہیں لیکن ان کی گیس سے اسلام آباد کے محلات روشن ہیں ۔ راقم کو سوشل ویلفیئر کمیٹی یونین کونسل درملک کے اس اجلاس میں شریک ہونے کا موقع ملا جس میں اس یونین کونسل کے ہر گاؤں سے 2،2مشران نے شرکت کی۔ اجلاس کے سربراہ شاد منیر ،ارشد خان خٹک ، مفتی نورالامین، شفیق خان، دیگر نے بتایا کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ ودیگرمسائل کے حل اور ترقیاتی کاموںکے سلسلے میںمسلسل دھرنوں،احتجاج کے بعد حکومت کے رابطہ کرنے پر30نومبر2020کو ڈی سی آفس کوہاٹ میں یونین کونسل درملک (لاچی) میں مشران کا جرگہ ہواجس میں وفاقی وزیر‎ شہریار خان ،رکن صوبائی اسمبلی شاہداد، نوید خٹک کے علاوہ ڈاکٹر مشتاق، شادمنیرو دیگر مشران نے شرکت کی۔ اس موقع پر ایک تحریری معاہدہ عمل میں لایا گیا،جس میں سردیوںمیں گیس کی سپلائی اور ڈیمانڈ کومدنظر رکھتے ہوئے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہ کرنے، دیگر مسائل کے حل اور ایریا ڈویلپمنٹ فنڈز سےسڑک کی تعمیرو دیگر ترقیاتی کام شامل تھے ۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر عمر ایوب ،شہریار آفریدی اورسابق مشیر ندیم بابر سے ملاقات میں اس معاہدے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن تا حال عمل درآمد تو دور کی بات کہ گرمیوں میں بھی، جب گیس کم استعمال ہوتی ہے،لوڈشیڈنگ نے علاقہ مکینوں کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے ۔یہی مسائل کوہاٹ اور کرک سمیت پورے پختونخوا کے باشندوں کو درپیش ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار آئین کے تحت قدرتی وسائل رکھنے والےان علاقوں کے باشندوں کو ان کا حق دے۔

تازہ ترین