• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں ایک تصویر ایک ہزار الفاظ سے زیادہ اثر رکھتی ہے اور جب میں نے جناب وزیراعظم نواز شریف کی ایک تصویر اخبار میں دیکھی تو مجھے یوں لگا کہ اس تصویر کے بعد کیسے ممکن ہوگا کہ نواز شریف کسی قسم کا احتساب کر سکیں خاص کر جانے والی حکومت کے اہم ترین لوگوں کا۔ اس تصویر میں میاں صاحب ان کی بیگم اور بیٹی کچھ اس طرح صدر زرداری اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے براتی اور سسرالی بوقت رخصتی تصویریں کھنچواتے ہیں اتنا پیار اتنی قربت اور اتنی احسان مندی نظر آرہی تھی کہ یہ تصور بھی ممکن نہیں کہ میاں صاحب کی حکومت زرداری صاحب کو کسی کیس میں یا عدالت کے کسی حکم پر پکڑ سکے گی اور خود زرداری صاحب کی تو یہ حالت ہے کہ پاؤں پکڑنے کے علاوہ جو انداز رحم کی درخواست کرنے والوں کا ہو سکتا ہے وہ ہر طرح سے عیاں ہے اور لگتا ہے یہ حالت ابھی اسی طرح آگے بڑھے گی کیونکہ آگے پیچھے کے لوگ تو ایک ایک کر کے دائیں بائیں ہوتے ہی جا رہے ہیں اور اسکینڈل پر اسکینڈل کاغذوں میں اور اخبار والوں کے پاس تیار ہیں۔ عدالتوں نے بھی NRO اور میموکیس سے لیکر ہر پرانے کیس اور فیصلے کی تاریخیں دینا شروع کردی ہیں مگر جو پٹارہ ان چین کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں اور MOUs کا کھلنے والا ہے وہ نئے نئے انکشافات کرے گا۔ ان کمپنیوں کے پاس نہ جانے کون سے مقناطیس ہیں کہ چند ہفتوں کے لئے آنے والے عبوری حکمران بھی کارروائی سے باز نہ آسکے۔ وزارت ریلوے کو ہی لے لیں بلور صاحب کی تو جوحالت بنی سو بنی اس ریلوے کی وجہ سے ۔مگر سعد رفیق کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے۔ اب کوئی نہ کوئی تو وجہ ہوگی کہ بجٹ کے روز یعنی 12 جون کو شاید نئے وزیر ریلوے سعد رفیق کی منظوری یا علم کے بغیر ہی ریلوے کے حکام شاہدرہ سے فیصل آباد اور لالہ موسیٰ تک ڈبل ٹریک یعنی دوسری ریلوے لائن بچھانے کا ٹینڈر تیار کررہے ہیں جس کی مالیت کوئی 220 ملین ڈالر یا دو ارب 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ ایک اور منصوبہ جو چینی کمپنی سے50/انجن خریدنے کا ہے وہ بھی تیزی سے بڑھایا جارہا ہے اس ڈر سے کہ کہیں نئی حکومت اور نئے وزیر زرداری صاحب کے دستخط کئے ہوئے بے شمار معاہدے اور MOU جو انہوں نے اپنے چین کے سرکاری اور نجی دوروں میں کئے تھے، معطل نہ کردیں۔ جب اسحاق ڈار ایک ایک روپیہ جوڑ کر بجٹ بنارہے ہوں گے ریلوے والے جلدی جلدی انجن خریدنے میں مصروف ہیں چین کے بھیجے ہوئے69 انجن غلام بلور صاحب کی حکومت کو تو کھا گئے۔ ان 69 انجنوں میں سے 61کباڑی بازار میں بکنے کے قابل ہیں اور مختلف ریلوے کے گوداموں میں مٹی کھا رہے ہیں جبکہ صرف 8/ابھی تک چلنے کے یا رینگنے کے قابل ہیں۔ ریلوے کی مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ نواز شریف حکومت کا یہ پہلا اسکینڈل ہو گا گو اس کی تیاری اور چائے پانی کا انتظام تو پہلے والی اصلی اور عبوری حکومتیں کر گئی ہیں۔ اب سعد رفیق جانیں اور چینی کمپنیاں مگر جن معاہدوں پر دستخط زرداری صاحب کر گئے ہیں اگر ان کو کسی NAB یا کسی اور ادارے نے دیکھنا شروع کیا تو لگتا ہے ڈپلومیسی کی دنیا میں بھونچال آجائے گا۔ چینی کمپنیاں بہت ہی شاطر طریقے سے سودے کرتی ہیں اور پاکستان میں تو اتنے بڑے بڑے بریف کیس آتے ہیں کہ کوئی اسلام آباد کے رہنے والوں سے پوچھے ان میں کیا ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ پاک چین دوستی کے جھنڈے تلے جائزہے اورپورا تحفظ بھی ملا ہوا ہے ورنہ کوئی پوچھے کہ پاکستان کی تانبے کی سب سے بڑی کانوں یعنی سینڈک سے پاکستان کو اور بلوچستان کو کیا ملا؟ پاک چین دوستی زندہ باد مگر سینڈک کی کان اب کھوکھلی ہو چکی اور ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا چین کی کمپنی کو مفت کا نظرانا (نذرانہ) ہی تھا۔ سینڈک کے کام تمام ہونے کے بعد ریکوڈک کی باری ہے اور اللہ خیر کرے اگر یہاں بھی وہی ہوا تو پھر بلوچستان والے اپنی خیر منائیں۔ ریکوڈک کا ذکر آیا تو بتاتا چلوں کے بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ کو بھی یہ اعزازحاصل ہے کہ وہ کینیڈا اور چلی کی کمپنی کے مہمان رہ چکے ہیں اوران کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کر چکے ہیں مگر وہ تو خیر ہو سپریم کورٹ کی کہ اس نے درمیان میں آکر ریکوڈک کو بچا لیا ورنہ کھربوں ڈالر کی یہ سونے اور تانبے کی کانیں کوڑیوں کے مول بک چکی ہوتیں۔ اب بھی پوری کوشش ہوگی مگر نواز شریف کی حکومت نے اگر احتیاط سے کام نہیں لیا تو بڑا نقصان اس کے کھاتے ہیں آجائے گا۔ ریکوڈک سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی تو بھاگ گئی کیونکہ عدالت عالیہ نے کئی گھپلے پکڑ لئے مگر اب سوائے ایک شفاف اور غیرمتنازع انٹرنیشنل ٹینڈر کرکے سب سے زیادہ بولی لگانے والی کمپنی یا کمپنیوں کو ریکوڈک میں سے سونے کے ذخیرے نکالنے کا ٹھیکہ دینے کے کوئی حل نہیں اور مجھے علم ہے نواز شریف کی جیت کے بعد کئی امریکی، کینیڈا اور آسٹریلیا کی کمپنیاں سوارب ڈالر سے زیادہ کی بولی لگانے کی تیاری کر رہی ہیں اب اگر اس اربوں ڈالر کے ہمارے خزانے پرکسی نے ہاتھ ماردیا تو ذمہ داری نواز شریف کی حکومت کی ہی ہو گی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ زرداری صاحب اور چینی کمپنیوں کو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ وہ ریکوڈک کا بھی ایک MOU دستخط کردیتے۔ آج جب ٹھیکوں اور کاروباری موضوع پر بات ہو رہی ہے تو یاد دلا دوں کہ پچھلے ہی ہفتے میں نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا کراچی کی میٹرو پر کیونکہ شہباز شریف صاحب نے بڑے زورشور سے اعلان کیا تھا کہ وہ لاہور کے بعد کراچی میں بھی میٹرو شروع کریں گے۔ میرا مضمون3 جون کو شائع ہوا اور میں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کراچی کی میٹرو کہیں اسلام آباد میں نواز شریف اور سندھ میں زرداری صاحب کی حکومتوں کے درمیان فٹ بال نہ بن جائے۔ قائم علی شاہ نے تو جیسے یہ معاملہ دل پر ہی لے لیا اور چھ دن بعد ہی اعلان کر دیا کہ وہ کراچی کی سرکلر ریلوے جسے شہباز شریف میٹرو کہتے ہیں اس پر 6 مہینے میں کام شروع ہو جائیگا مگر شاید قائم علی شاہ صاحب کو معلوم نہیں کہ یہ منصوبہ دو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا ہے اور جاپان اس کیلئے قرضہ دیگا۔ قرضے کی درخواست تو نواز شریف کی حکومت کو دینی ہوگی اور گارنٹی بھی وفاقی حکومت ہی دے گی تواب اتنے بڑے منصوبے کا کریڈٹ کس کو ملے گا اور سیاسی فائدہ کون لے گا۔ ہو سکتا ہے ہنی مون کے دوران نواز شریف صاحب یہ تحفہ بھی زرداری صاحب کو عنایت کر دیں مگر جاپانی حکومت تو کسی چکر بازی میں پڑنے کو تیار نہیں اور ہمارے جنگ اخبار کے جاپان میں نمائندے کی اطلاع کے مطابق اویس مظفر صاحب کواس منصوبے کا انچارج بنایا جا سکتا ہے یعنی نواز شریف الیکشن جیت کر اویس صاحب کے ہاتھ میں دو ارب ڈالر یعنی دو سو ارب روپے کا قرضہ تحفہ کے طور پر دے دینگے۔ قرین قیاس نظر آتا ہے آخر چند لائنوں میں ذکر کروں کہ عمران خان کی صحت کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں اور PTI والے کچھ چھپا رہے ہیں اللہ ان کو جلد صحت یاب کرے ایک اور خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور عقیل کریم ڈھیڈی کے NAB کے بیانات ایک طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔ مسعود محمود والی کہانی یاد آرہی ہے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں اور پیر اعجاز کو اپنا پیرمان لیں۔
تازہ ترین