• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس اختیارات اور احتجاجی حق محدود کرنے کے بل پر پیش رفت جاری، مظاہرے تحریک میں تبدیل

لندن (سعید نیازی) پولیس کو مزید اختیارات دینے، احتجاج کے حق کو محدود کرنے اور مختلف جرائم کی سزائوں کو مزید سخت بنانے کے حوالے سے حکومت کا پولیس، کرائم، سین ٹینسنگ اینڈ کورٹس بل جس طرح پارلیمنٹ میں مختلف مراحل طے کررہا ہے، وہیں پارلیمنٹ کے باہر ملک بھر میں اس کے خلاف ’’کِل دی بل‘‘ کے عنوان سے ہونے والے مظاہرے احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بل پر دو خواندگیاں مکمل ہوچکی ہیں جس میں حکومت کو کامیابی ملنے کے بعد اب یہ بل کمیٹی اسٹیج پر ہے۔ رپورٹ اسٹیج کے بعد اراکین پارلیمنٹ تیسری خواندگی کے تحت اپنی رائے کا اظہار کریں گے جس کے بعد اسے ہائوس آف لارڈز میں بھی ان ہی مراحل سے گزرنا ہوگا، دونوں ایوانوں میں بل پاس ہونے اور ملکہ برطانیہ کی منظوری ملنے کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کرے گا۔ 9 مارچ کو جب یہ بل پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پیش ہوا اس وقت سے لندن اور برسٹل سمیت ملک کے دیگر شہروں میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور ان مظاہروں میں ہنگامہ آرائی کے سبب جہاں درجنوں پولیس افسران زخمی ہوئے ہیں وہیں تقریباً 200 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اس بل کے قانون بننے کی صورت میں جہاں ایمرجنسی ورکرز پر حملے کی سزا بڑھا کر دوگنی کر دی جائے گی، وہیں خطرناک مجرموں کی جلد رہائی ممکن نہیں رہے گی۔ پولیس کو یہ اختیارات بھی حاصل ہوں گے کہ وہ مظاہرے کے شروع اور ختم ہونے کے حوالے سے وقت کا تعین اور شرکاء کو بلند آواز میں شورمچانے سے روک سکے۔ ان شرائط کا اطلاق کسی ایک شخص کے مظاہرے پر بھی ہوگا۔ پولیس مظاہروں سے نمٹنے کیلئے بھی اختیارات چاہتی ہے کیونکہ ان مظاہروں کے سبب وسطی لندن کئی ہفتوں کیلئے مفلوج ہوجاتا ہے۔ سابق لیبرلیڈر جیرمی کوربن نے اختتام ہفتہ پر ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی اور کہا کہ یہ بل خطرناک ہے، دن میں آٹھ گھنٹے کام کرنا اور خواتین کیلئے مساوی تنخواہ جیسے حقوق احتجاجی تحریکوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتے ہیں جب کہ لیبر پارٹی کے سربراہ سر کیئر اسٹارمر نے بل کے حوالے سے مختلف تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ بل میں خواتین کے تحفظ سے زیادہ مجسموں اور یادگاروں کا خیال رکھا گیا ہے جنہیں نقصان پہنچانے والوں کی سزا 10 برس تک بڑھا دی گئی ہے۔

تازہ ترین