• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیوروکریسی کا آئی پی پیز سے کانٹریکٹس پر عملدرآمد سے انکار

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) نیب اعتراض نا ہونے کے باوجود بیوروکریسی نے آئی پی پیز سے کانٹریکٹس پر عمل درآمد سے انکار کردیا ہے۔ ای سی سی اجلاس میں پاور ڈویژن نے آئی پی پیز کو ادائیگی اور مصالحتی ٹریبونل کا قیام معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، نیب کی جانب سے پاور ڈویژن کو خط لکھے جانے کے باوجود پاور ڈویژن اور فنانس ڈویژن کی اعلیٰ بیوروکریسی آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب نے اب تک آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی توثیق نہیں کی ہے۔ نیب نے فروری، 2021 میں سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے تمام ریکارڈ اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اضافی منافع حاصل کرنے والی کچھ آئی پی پیز کے خلاف تحقیقات کررہی ہے۔ فنانس ڈویژن اور پاور ڈویژن کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے لکھا گیا خط ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نیب اس پورے عمل کی توثیق کرے کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ مستقبل میں اس حوالے سے نیب کوئی کارروائی کرے۔ نیب کی جانب سے معاہدوں کا تمام ریکارڈ قبضے میں لینے کے بعد پاور ڈویژن نے نیب سے درخواست کی تھی کہ وہ مذاکرات اور معاہدوں کے عمل کی مکمل چھان بین کرے اور اس کی توثیق کرے۔ نیب نے جواب میں کہا تھا کہ اسے مذکورہ معاہدوں کی تفصیلات موصول ہوگئی ہیں تاہم اس نے نا ہی اس کی جانچ پڑتال سے متعلق کچھ بتایا اور نا ہی اس کی توثیق کی بلکہ صرف اتنا کہا کہ وزارت کی جانب سے کانٹریکٹ پر عمل درآمد قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 9 کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ جس کے بعد ہی بیوروکریسی نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک نیب اس پورے عمل کو کلیئر نہیں کردیتا اس وقت تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔ بدھ کے روز منعقدہ ای سی سی اجلاس مین جس کی صدارت وفاقی وزیر برائے خزانہ، ریونیو، صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کی تھی۔ اس میں پاور ڈویژن نے سمری پیش کی جس میں پاور پالیسی 2002 کے تحت لگائے گئے پاور پلانٹس کے حوالے سے تمام آئی پی پیز کی ادائیگیاں اس وقت تک معطل کرنے کی درخواست کی گئی، جب تک آئی پی پیز کی اضافی منافع کی تحقیقات منطقی انجام کو نہیں پہنچ جاتیں۔ پاور ڈویژن نے اپنی سمری میں لوکل مصالحتی ٹریبونل کے قیام کا عمل معطل کرنے کی درخواست بھی کی جو کہ 12 آئی پی پیز کے مبینہ طور پر 55 ارب روپے کے اضافی منافع سے متعلق کیا جارہا تھا۔ سمری میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ایف بی آر کانٹریکٹرز کے ٹیکسز متعلقہ ادائیگی کی 4 فیصد شرح پر پر نظرثانی کرے اور اس بات کا سراغ لگائے کہ پاور پالیسی 1994 کے تحت لگائی گئی آئی پی پیز پر لگائے گئے الزامات حقائق پر مبنی ہیں یا نہیں اور متعلقہ آئی پی پیز کی جانب سے کوئی ادائیگی واجب الادا ہے یا نہیں۔ حکومت پہلے ہی 1994 کی پاور پالیسی کے تحت قائم کردہ 9 آئی پی پیز کو 29 مارچ کو 85 ارب روپے (واجبات کا 40 فیصد) ڈیفالٹ کرچکی ہے، جس کی وجہ نیب کا خوف ہے۔ جب تک نیب اپنی تحقیقات مکمل کرکے انہیں کلیئر نہیں کرتا اس وقت تک بیوروکریسی کے لیے کانٹریکٹس پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ تاہم، ای سی سی نے سمری ملتوی کردی اور کہا کہ نظرثانی شدہ کانٹریکٹس پر عمل درآمد جس میں 836 ارب روپے کا رعایتی ٹیرف ہے، اس پر عمل درآمد لازمی ہے۔ جب کہ متعلقہ اداروں کو اس پر عمل درآمد کی راہ جلد از جلد ہموار کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ ای سی سی سمری میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے آئی پی پیز کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں اور ان کی رپورٹ کابینہ کمیٹی نے منظور کی ہے، جس کے بعد عمل درآمد کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ مفاہمتی یادداشتوں کو معاہدوں میں تبدیل کیا جاسکے۔ تاہم، نیب نے اس حوالے سے آگاہ کیا ہے کہ وہ اس ضمن میں کرپشن الزامات پر تحقیقات کررہا ہے اور نشاط چونیاں پاور لمیٹڈ کی مینجمنٹ کے خلاف کرپشن تحقیقات جاری ہیں۔ سمری میں مزید کہا گیا ہے کہ متعلقہ ریکارڈ نیب لاہور کو فراہم کیا جاچکا ہے۔ جس کے بعد پاور ڈویژن نے نیب سے درخواست کی ہے کہ وہ مذاکرات اور معاہدوں کے عمل کی جانچ پڑتال کرے۔ جس کے جواب میں نیب نے کہا کہ اسے مذکورہ معاہدے موصول ہوچکے ہیں تاہم، یہ نہیں بتایا کہ اس کی جانچ پڑتال ہوچکی ہے اور اس کی توثیق بھی نہیں کی۔ چوں کہ نیب بظاہر اضافی منافع کے مسئلے پر تحقیقات کررہا ہے لہٰذا یہ معاملہ پاور پالیسی 2002 کے تحت قائم آئی پی پیز سے متعلق ہے۔ یہی مناسب ہے کہ آئی پی پیز یا پاور پالیسی 2002 کی ادائیگی میں پیش رفت سے قبل نیب کی تحقیقات کے نتیجے کا انتظار کیا جائے۔

تازہ ترین