• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

دنیا کے اس دوسرے بڑے براعظم کے 55 آزاد ملکوں کے علاوہ کچھ علاقے اب بھی زیر نگیں ہیں۔ ان میں مایوٹ، اے یونیوں، سینٹ ہلینا، اسنیشن و ترستان اور داکونیا بیرونی جبکہ جزائر کناری، سبتہ، مادیعیرا اور ملیلہ اندرونی طور پر زیرنگیں ہیں۔ افریقہ میں گھنے جنگلات ہیں، وادیاں، دلکش نظارے اور وسیع صحرا، افریقہ کے شمالی اور جنوبی حصے صحرائوں پر مشتمل ہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا صحرا سہاراشمالی افریقہ میں ہے۔ افریقہ کے دوسرے بڑے صحرائوں میں نمیب اور کالا ہاری شامل ہیں مگر جو سب سے بڑا صحرا ہے اس کے جنوب میں گھاس کے وسیع میدان ہیں جبکہ مشرق میں مشہور ترین وادی الشق ہے۔ یہ عظیم ترین وادی زمین میں ایک بڑی دراڑ کے نتیجے میں تخلیق پائی۔زمین میں یہ بڑی دراڑ جھیل نیاسا سے بحیرہ احمر تک پھیلی ہوئی ہے۔سونے، تانبے، ہیرے، لوہے، یورینیم اور تیل سمیت متعدد معدنیات سے بھرا ہوا یہ براعظم کئی لحاظ سے دُکھوں کی بستی ہے۔ موسم کی سختیاں ایک طرف، غربت اور آپس کی لڑائیاں بھی تو ہیں۔ اس براعظم کے کئی ملکوں کو بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ غلامی بھی عجیب نشانیاں چھوڑ جاتی ہے۔ پہلے پہل تو غیر ملکی آقا بہت کچھ لوٹ کر اپنے ملکوں میں لے جاتے ہیں پھر اس کے بعد خام مال لیجانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ غلامی آپس کی لڑائیوں کا تحفہ بھی دے جاتی ہے، غلامی غربت کی زنجیروں میں جکڑ جاتی ہے، غلامی بستیوں میں خوف بچھا جاتی ہے، بیماریوں اور افلاس کی دلدل میں پھنسا جاتی ہے۔ غیر ملکی آقا سب سے بڑا ظلم یہ کرتے ہیں کہ جاتے وقت، آزادی دیتے وقت، ان غلام ملکوں کو اپنے وفادار غلاموں کے سپرد کر جاتے ہیں، پھر یہ غلام ان ملکوں کی اشرافیہ بن کر حکمرانی کرتے ہیں، اپنے ملکوں کی دولت لوٹ کر اپنے آقائوں کے ملکوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی ہر سال غریب ملکوں سے دس کھرب ڈالر سامراجی ملکوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔غریب ملکوں کی اشرافیہ اپنی دولت کے لئے مغربی ملکوں کو محفو ظ ترین سمجھتی ہے۔یہ وہ غلط فہمی ہے جو غلام حکمرانوں کو اپنے ملکوں کو غریب رکھنے پر اکساتی ہے۔آپ نے مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کا واقعہ تو سنا ہو گا کہ جب وہ جرمنی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا تو ایک جرمن بوڑھے نے اس کی شکل دیکھنے سے محض اس لئے انکار کر دیا تھا کہ یہ شخص مصر پر کئی برس حکومت کرتا رہا اور اس نے اپنے ملک میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں بنایا جہاں اس کا علاج ہو سکتا۔اس سلسلے میں ہم اپنے ملک پاکستان اور اس پر حکمرانی کرنے والوں پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ اب لیبیا کے عوام کو خوشحال رکھنے والے قذافی کا قصہ بھی سن لیجئے۔قذافی نے اپنی اور اپنے خاندان کی دولت کے لئے مغربی ملکوں کو محفوظ سمجھا تھا، آج وہ تمام دولت ہڑپ ہو چکی ہے۔ ہمارے عرب حکمران بھی اپنا سرمایہ مغربی بینکوں میں محفوظ تصور کرتے ہیں، یہ ان کی بھول ہے، سادہ دلی ہے یا غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ ہے؟ایک بات تو طے ہے کہ مغربی دنیا میں غریب ملکوں کے حکمرانوں کی دولت کسی بھی صورت محفوظ نہیں، نہ ان کی زندگیوں میں اور نہ مرنے کے بعد، آقائوں کا جب جی چاہے وہ آنکھیں پھیر لیں۔ اسلامی دنیا نے آغا حسن عابدی کی قیادت میں بینک قائم کیا تھا مگر مغربی دنیا اس بینک کے پیچھے پڑ گئی تھی اور اس بینک کو بھی سازشیں لے ڈوبیں۔

اس مرحلے پر چند افریقی ملکوں کی مثالیں دے رہا ہوں کہ ان کے ہاں امارت کتنی ہے مگر ان کے معاشروں میں غربت بھی انتہا کی ہے۔دنیا کے پہلے پندرہ غریب ترین ملک افریقہ میں ہیں، وہاں جہالت اور بھوک ہے مگر دنیا کا بیس فیصد تیل و گیس انہی ملکوں میں ہے۔ افریقی ملکوں نے زراعت پر بھی توجہ نہیں دی، حالت یہ ہے کہ پورے براعظم میں پاکستان سے کم گندم پیدا ہوتی ہے۔ یعنی پاکستان 25ملین ٹن جبکہ پورا افریقہ 21ملین ٹن گندم پیدا کرتا ہے وہاں آبپاشی کا نظام ہی نہیں، مصر میں کسی حد تک ہے مگر وہ بھی نہ ہونے کے برابر، حالانکہ دنیا کا طویل ترین دریا افریقہ کے گیارہ ملکوں سے گزرنے والا دریائے نیل چھ ہزار چھ سو ستر کلومیٹر طویل ہےاور یہ چالیس کروڑ انسانوں کی آبی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ وکٹوریہ جھیل سے نکلنے والے اسی دریا کے کنارے قاہرہ، خرطوم اور سکندریہ جیسے شہر آباد ہیں۔ دریائے نیل کے علاوہ افریقہ میں دریائے نائیجر، دریائے کانگو، دریائے زمبیزی، دریائے لیمپوپومشہور ہیں۔ دریائے سینیگال بھی ہے جو سینیگال، گیمبیا اور موریطانیہ میں بہتا ہے۔ دریائوں اور معدنیات کے باوجود افریقہ میں غربت کے بسیرے کا جواب کرپشن ہے، وہاں کی لیڈر شپ کرپٹ ہے۔مثلاً نائیجیریا جہاں دن کا بائیس لاکھ بیرل تیل نکلتا ہے مگر غربت ساٹھ فیصد ہے، ایک ٹورئیل گنی میں روزانہ چھ لاکھ بیرل تیل نکلتا ہے اگر یہ ملک ہرسال اپنے ہر شہری کو دس ہزار ڈالر دے تو تب بھی آدھی دولت بچ جاتی ہے۔ یہ ملک ہمارے ضلع چاغی سے بھی چھوٹا ہے، سالانہ آمدن تیس ارب ڈالر ہے مگر شہروں میں غربت بولتی ہے۔ افریقہ میں فصلوں کو بڑھایا جا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا، افریقی تو اپنے پھل بھی متعارف نہ کروا سکے۔افریقہ سے باہر ایشٹا، کیانو، اکی، مارولا، جادوپھل اور کیجیلیا کا کیا پتہ؟

افریقیوں کی آپس کی عداوت نے بھی پسماندگی میں بنیادی کردار ادا کیا، ہو سکتا ہے یوگنڈا اور جنوبی سوڈان میں لارڈز آرمی کا کردار ہو، وارلارڈزکا صومالیہ میں قصور ہو، نائیجیریا، نائیجر اور مالی میں قبائلی اختلافات ، اسی طرح مذہبی بنیادوں پر قتل وغارت کچھ حقائق آئندہ، فی الحال وصی شاہ کا شعر

تمام شہر ہی مجھ کو ہے میرے گھر کی طرح

سو آج بھی وہی سڑکوں پہ رات ختم ہوئی

(جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین