• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک عظیم کائناتی حقیقت نہ جانے کس طرح نوجوان شاعر عامر بن علی کے تخیل میں پڑاوٴ کر کے ایک ایسے اعلیٰ شعر میں ڈھل گئی جو نہ صرف شعریت، ابلاغ اور خوبصورتی کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے بلکہ مقبولیت کے باعث ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ حُسن اور حکومت در اصل دو طاقتوں کے نام ہیں۔ کائنات میں ہر سو اِن دو طاقتوں کا راج نظر آتا ہے جبکہ وحدت الوجودی فلسفی کہتے ہیں کہ دوئی نظر کا دھوکہ ہے اور یہ طاقتیں دو نہیں ایک سکّے کی طرح ایک ہی حقیقت کے دو پہلووٴں کی مانند ہیں یعنی ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ناممکن ہے۔ اگر ہم حسن کو خیر، نور، فلاح، نیکی اور عشق کو عمل، جنون اور حکومت کے معنی و مفہوم میں سمجھنے کی کوشش کریں تو بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ سیاست کو بھی اسی حوالے سے پرکھا جا سکتا ہے کہ سیاست کی پُرخطر راہ کا انتخاب کرنے والے دولت و ثروت، دُنیاوی جاہ و جلال اور تخت و تاج کے بجائے انسانیت کی خیر اور فلاح کے مقصد کے حصول کے لئے میدانِ عمل میں آتے ہیں اور حکومت کے ذریعے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کے ابھی تک جو بیانات اور اقدامات سامنے آئے ہیں وہ ان کے نیک ارادوں اور طلب ِ خیر کی خواہش پر مبنی ہیں۔ یہ محض اتفاقات نہیں پاکستان میں کچھ اچھا ہونے والا ہے۔ یہ مشیت ِ ایزدی ہے کہ جب کسی قوم کی قسمت سنوارنا مقصود ہو تو ایسے سبب پیدا کر دیئے جاتے ہیں جن کے باعث منزل آسان ہو جاتی ہے۔ دراصل دنیا میں اتفاق نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ جنہیں ہم حسین اتفاقات کا نام دیتے ہیں، سب قدرت کے پیدا کردہ وسیلے ہوتے ہیں جو فرد اور قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر غیر متوقع طور پر خوشحالی کی سڑک پر گامزن ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے راستے کی نشاندہی اور نقشے کی فراہمی کے بعد فرد اور قوم اپنے تدبر، عمل، فکر اور کاوش سے منزل تک پہنچتے ہیں۔ اختیار اور بے اختیاری، تقدیر اور تدبیر ملا جلا عمل ہے۔ بے یقینی اور خوف میں گھرا ہوا انسان آندھیوں کی زد میں رہتا ہے۔ جب قدم پوری قوت سے زمین کے ساتھ منسلک ہوں تو وجود اُس طاقتور پیڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے دیکھ کر طوفان بھی اپنا رُخ تبدیل کر لیتے ہیں۔ دل میں پھوٹنے والی یقین، خیر اور خدمتِ خلق کی فصل کو پروان چڑھانے کیلئے پوری کائنات حرکت ِ عمل میں آجاتی ہے۔ دشواریاں آسانیوں میں تبدیل ہوتی جاتی ہیں اور رکاوٹیں رہبر کا روپ دھار لیتی ہیں۔
میرا ایمان ہے کہ پاکستانی قوم کی قسمت بدلنے والی ہے ورنہ اتنی بے یقینی کی فضا میں ایک سیاسی جماعت کا اکثریت حاصل کر کے مضبوط حکومت کی بنیاد رکھنا، بلوچستان کے مسئلے اور حکومت سازی کے حوالے سے تاریخی فیصلے کر کے بلوچوں کے دِل جیتنا اور انہیں پھر سے قومی دھارے میں شامل کرنا، خیبر پختونخوا اور سندھ میں دیگر جماعتوں کے مینڈیٹ کو کھلے دل سے قبول کرنا، حکومت اور اپوزیشن کا ملکی مفاد کے لئے سیاسی اختلافات نظر انداز کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا، ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں زخم کھانے کے بعد تدبّر اور فہم و فراست سے دوبارہ مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرنا۔ عدلیہ، آرمی اور انتظامیہ میں باہمی ہم آہنگی پیدا ہونا دراصل حُسن اور خیر کی وہ تجلیاں ہیں جو پاکستان کے جمہوری اور سیاسی سفر کے سنہرے دور کے آغاز کے طور پر تاریخ کے اوراق پر درج ہو رہی ہیں اور پاکستان کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر روشنی کا ہم سفر بنانے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ چیلنج اپنی جگہ مگر جب قوم یکجا ہو، ادارے مضبوط اور اپنی کارکردگی میں آزاد ہوں، نیت خیر ہو تومسائل کے پہاڑ ریت کے ٹیلے بن جاتے ہیں اور جذبوں کی تیز ہوا انہیں باقی نہیں رہنے دیتی۔ میرے ملک میں اجتماعی سوچ حُسن اور خیر میں ڈھلنے کا سفر شروع کرچکی ہے۔ اب عشق کو ان تجلیوں کی طاقت سے عمل کو یقینی بنانا ہے۔حکومت کو اپنی رٹ قائم کر کے دکھانا ہے۔ دگرگوں معاشی صورتحال کو بہتری کی طرف لانے کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری کیلئے ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت کو روک کر ملک میں جاری وحشت اور دہشت کے کھیل کے سوداگروں سے سودے بازی یا مُک مُکا کر کے ڈنگ ٹپاوٴ کی پالیسی ترک کرنا ہو گی اور ان کے سامنے جھکنے کے بجائے مفاہمت اور تدبیر سے راست قدم اٹھانا ہو گا اور یہ سارے کام گوادر رپورٹ کی طرح آخری دنوں میں نہیں بلکہ یہیں سے ہی شروعات ہونی چاہئے جو کام کرنا ہے اُس میں دیر نہیں اور جو نہیں کرنا اس کا متبادل تلاش کر کے شروع ہو جائیں ورنہ اس شعر کا دوسرا مصرعہ بہت ظالم ہے
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے
یہ بتاوٴ دونوں کی عمر کتنی ہوتی ہے
یہ حقیقت ہے کہ حسن اور طاقت انسان کی کمزوری ہے، حکومت بھی طاقت کی ایک شکل ہے۔ لوگ گھروں، خاندانوں، اداروں اور علاقوں میں کسی نہ کسی حوالے سے اپنی خواہش کو حقیقت کا روپ دیتے رہتے ہیں جبکہ دِلوں کی بستی میں قیام کرنے والے مطیع ہونے میں سرشاری محسوس کرتے ہیں کیوں کہ خود کو ہار کر جو بازی جیتی جاتی ہے اس کی مسرت کا نعم البدل کوئی نہیں۔ حسن اور حکومت دونوں کی عمر بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ظاہری حسن ڈھل جاتا ہے اور حکومتوں کی میعاد بھی ختم ہو جاتی ہے۔ صرف ظاہر کے اسیر جدید مصنوعی طریقوں سے ظاہری حسن کو کچھ دیر اور قائم رکھنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح طاقت کے اسیر غیر جمہوری طریقوں سے حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں مگر حرف تحسین انہی کا مقدر بنتا ہے جو آنکھوں میں روشنی اور لبوں پر ہنسی کے دیے جلا کر دلوں کو جیتنے کا جتن کرتے ہیں، یہی حسن ہے۔ اعلیٰ تصورات کی پاسداری، زندگی گزارنے کا ڈھب، تعصب سے پاک نظریات اور مثبت فکر انسان کو ایسا حسن عطا کرتی ہے جسے کبھی زوال نہیں، عمر اور زندگی کی بھی کوئی قید نہیں۔
سقراط آج بھی زندہ اور حسین ہے۔ خواہش اور دعا ہے کہ موجودہ تمام اسمبلیاں بھی اپنی طبعی عمر ضرور پوری کریں مگر پانچ سال گزرتے دیر نہیں لگتی اس لئے ہر لمحہ تدبیر اور عمل کے ذریعے وطن کو حسین بنانے کا آغاز آج اور ابھی سے شروع ہو جانا چاہئے۔ حکومت کا مطلب اختیار اور عمل ہے، اسے کسی صورت بھی بے بس اور بے اختیار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر حکومت بے بس اور بے اختیار ہو جائے تو قوم کا مورال پست ہو جاتا ہے اور معاشرے کی تمام خوبصورتی تباہ ہو جاتی ہے اور بدصورت معاشروں کی قوموں کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ آئیے مل کر اپنے وطن کو حسین اور طاقتور بنائیں۔
تازہ ترین