• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام طور پر کہا جاتا ہے، سمجھا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے کہ خدا کی بستی اور اللہ کی بستی کے درمیان بسنے والی برباد بستی کے درمیان ہم لوگ سوچ نہیں سکتے۔ اس بات میں قطعی کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ برباد بستی کے ہم لوگ سوچ نہیں سکتے۔ اگر ہم میں سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت ہوتی تو ہم پھکڑ اور پھٹیچر لوگ ملک کی اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی کے لئے وڈیروں، چوہدریوں، پیروں اور سرداروں کو ووٹ دے کر کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ اسمبلیوں میں نمائندگی کرنے کیلئے ہم اپنے جیسے نمائندوں کو ووٹ دیتے، جن لوگوں کے بچے اسکول سے محروم بھٹکتے، پھرتے ہیں اور گیراجوں میں کام کرتے ہیں، گاڑیوں کے بمپر اور مڈگارڈ چمکاتے ہیں اور گندے ٹائر دھوتے ہیں اور مستریوں کی گالیاں سنتے ہیں، ان کی اسمبلیوں میں نمائندگی ایسے لوگ کیسے کر سکتے ہیں جن کے بچے لگژری گاڑیوں میں سج سنور کر اعلیٰ اسکولوں میں پڑھنے جاتے ہیں؟ برباد بستی کے بے روزگار انجینئرز، ڈاکٹرز اور آرٹس میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھنے والوں کی اسمبلیوں میں نمائندگی ایسے لوگ کیسے کر سکتے ہیں جو علم، تعلیم اور تربیت سے نابلد ہیں؟ مگر یہ ہو رہا ہے اور اس لئے ہو رہا ہے کہ برباد بستی کے ہم سولہ کروڑ عوام سوچتے نہیں، ہم سمجھتے نہیں، ہم نیولے کو مار ڈالتے ہیں اور آستین کے سانپ کو دودھ پلاتے ہیں۔
آپ چونکہ برباد بستی میں نہیں رہتے اس لئے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ امکان سے باہر کی بات ہے کہ ایک بستی میں سولہ کروڑ لوگ رہتے ہوں جبکہ پاکستان کی کل آبادی سترہ کروڑ ہے۔ آپ سوچنے والے، سمجھنے والے چونکہ برباد بستی میں نہیں رہتے اس لئے آپ ہماری بستی کی وسعت کے بارے میں اندازہ نہیں لگا سکتے۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہماری بستی کا رقبہ کراچی کی دو مشہور بستیوں کنواری بستی اور شادی شدہ بستی کے برابر ہے۔ اچھی خاصی سوچ، سمجھ رکھنے والے یہیں پر مار کھا جاتے ہیں۔ آپ جب تک ہمارے ساتھ ہماری بستی میں آ کر نہیں رہتے تب تک آپ برباد بستی کی وسعت کے بارے میں اندازہ نہیں لگا سکتے۔ برباد بستی کراچی سے کاغان، کوئٹہ، کوہستان اور قلات تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں سولہ کروڑ لوگ رہتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ برباد بستی کے ہم سولہ کروڑ لوگ سوچتے نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو لوگ سوچتے نہیں ان کو بھوک نہیں لگتی، ان کو پیاس نہیں لگتی اور یہ کہ جو لوگ سوچتے نہیں وہ بولتے نہیں، وہ سنتے نہیں، وہ دیکھتے نہیں! ہم بول سکتے ہیں، ہم سن سکتے ہیں، ہم دیکھ سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم سوچ نہیں سکتے لیکن دنیا میں بہت کچھ سوچنے یا سمجھنے سے نہیں ہوتا۔ سیاسی، سماجی اور معاشی ریلے میں بہہ جانے کے لئے آپ سوچتے نہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشی ریلا آپ کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ برباد بستی کے ہم لوگوں کا حال ہی میں کچھ اسی طرح کی بپتا سے پالا پڑا تھا۔ میڈیا کا زوردار ریلا آیا اور برباد بستی کے ناسمجھ لوگوں کو بہا کر لے گیا۔ ٹیلی ویژن کے پچاس چینلز لگاتار ایک ہی بات بتا رہے تھے، سرکار نام دار دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ سرکار نام دار دہشت گردوں کے مطالبات ماننے کو تیار ہے۔ سرکار نام دار دہشت گردوں کو منہ مانگی مراعات دینے پر رضامند ہے۔ پچاس چینلز سے ایک ہی خبر کا زوردار ریلا برباد بستی کے لوگوں کو بہا کر لے گیا۔ ہم لوگ چکرا گئے۔ تھپیڑوں نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ہم مویشی نہیں ہیں اس لئے ہمیں شکایت نہیں ہے کہ سرکار نام دار ہمیں گھانس نہیں ڈالتی مگر یہ زبانی، کلامی اور تحریری تاریخ ہے کہ چھیاسٹھ برسوں میں کسی سرکار نام دار نے برباد بستی کی طرف توجہ نہیں دی۔ انتخابات کے موسم میں ہر سرکار نام دار کے نئے، پرانے اور گھسے ہوئے کل پرزے ہمارے ہاں آتے، ہم سے گڑگڑا کر ووٹ مانگتے، ہمیں سبز باغ دکھاتے اور پھر اس وقت تک غائب رہتے ہیں جب تک نئے انتخابات کا موسم لوٹ کر نہ آتا۔
اوپر والا خود حیران ہے کہ برباد بستی کے ہم سولہ کروڑ لوگ اب تک زندہ کیسے ہیں! کھانا ہے نہ پانی ہے، ہر سو گھپ اندھیرا ہے۔ تربیت نا تعلیم، اسپتال نہ ڈاکٹر، قاعدہ نہ قانون، راہ گیری میں رہزن، کھلے آسمان تلے دھوکے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ مسائل کے انبار اتنے کہ قد و قامت میں ہمالیہ کم پڑ جائے! تھینک یو میڈیا۔ ہم نے سیکھا ہے کہ جب تک ہم دہشت گرد نہیں بنتے، جب تک ہم بموں اور راکٹوں سے تعلیمی ادارے نہیں اڑاتے، جب تک ہم اسکول جاتی بچیوں کی بسیں، وین اور ویگنیں دھماکوں سے تباہ نہیں کرتے، جب تک ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو نیست و نابود نہیں کرتے، جب تک ہم ادب، آرٹ اور موسیقی کی سرکوبی نہیں کرتے، فوجی اور غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ نہیں بناتے، خون کی ہولی نہیں کھیلتے، تب تک سرکار نام دار ہماری طرف توجہ نہیں دے گی، ہم سے گفت و شنید نہیں کرے گی، ہم سے افہام و تفہیم نہیں کرے گی، ہمارے سامنے سرکار نام دار گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ اس لئے برباد بستی کے ہم لوگوں نے دہشت گرد بننے کا تہیہ کر لیا ہے، پکّا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم نے اپنی دہشت گرد تنظیم کا نام رکھا ہے ’باغبان‘!
آج کل ہم دنیا بھر کے لفنگوں اور آوارہ گردوں کو ’باغبان‘ میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ تاجک، ازبک، چیچنی، افغانی، برمی، افریقی جوق در جوق ہماری دہشت گرد تنظیم ’باغبان‘ میں شامل ہو رہے ہیں۔
دنیا میں لڑائی، جھگڑے، خون خرابی کرانے والے کنسورشیمز کی کمی نہیں ہے، انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب ہمیں جدید اسلحہ، گولہ بارود مل جائے گا۔ ہم سرکار کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔
تازہ ترین