• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات غور طلب تو ہے،اس لئے اور بھی زیادہ کہ صوبہ سندھ دوسرے صوبوں سے مختلف ہے، کئی اعتبار سے۔ سیاسی طور پر دیکھیں تو صوبہ دو حصوں میں، دو سیاسی جماعتوں میں بٹا ہوا ہے۔ایک طرف پاکستان پیپلزپارٹی ہے جو زیادہ تر دیہی علاقوں کی نمائندگی کرتی ہے، وہیں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کرتی ہے۔ دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) ہے جسے کراچی اور حیدرآباد سے بھاری اکژیت کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔گزشتہ پچیس برس سے یوں ہی ہو رہا ہے، 1988 سے اب تک۔ دونوں جماعتیں بہت حد تک اس خرابے کی ذمہ دار ہیں۔ پیپلزپارٹی نے شہری علاقوں پر کبھی توجہ نہیں دی۔ ایک طویل عرصہ سے اس کی قیادت مطمئن ہے کہ اسے سندھ سے قومی اسمبلی کی اکثر نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی اتنی نشستیں مل جاتی ہیں کہ اکثر وہ حکومت بنالیتی ہے۔ اس نے شہری علاقوں سے کبھی زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، ملازمتیں دینے میں یا ترقیاتی کام کرانے میں۔ اس کی اپنی صفوں میں بھی جو لوگ نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں ان کا تعلق زیادہ تر شہری علاقوں سے ہوتا ہے۔ بہت سے نام ہیں، دہرائے بھی جا سکتے ہیں، یاد بھی دلائے جا سکتے ہیں۔ یوں سب جانتے ہیں۔ پارٹی سے ہٹ کر دوسروں پر توجہ تو تب دی جاتی جب اپنے اندر والوں کی پذیرائی ہوتی ہو۔ اندر والے ہی محرومی کا شکوہ کرتے رہیں تو باہر والوں کو کیا ملتا؟ اب اگر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ صرف دیہی علاقوں کی حکومت ہے تو اس پر سیخ پا ہونے کے بجائے ذرا دیکھیں کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ کوئی وزیر مشیر شہری علاقوں کا ہے؟ یہ کیسا انداز حکمرانی ہے؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
دوسری طرف ایم کیو ایم ہے۔ یہ شروع ہی سے مہاجروں، اردو بولنے والوں کی نمائندگی کرتی رہی ہے مگر اس نے اپنی صفوں میں کشادگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مہاجر کے بجائے متحدہ قومی موومنٹ بنی، غیر مہاجروں کو بھی شامل کیا مگر جس طرح ایک سیاسی جماعت کو صوبے کے، ملک کے، تمام طبقوں کو شامل کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہئے اس طرح ایم کیو ایم شاید تمام لوگوں تک نہیں پہنچ سکی۔ کچھ اس کا ماضی بھی آڑے آتا رہا، کچھ اس کے خلاف عصبیت بھی تھی جس نے اس کے راستے روکے۔ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے، کچھ ہم کو مرنے کا شوق بھی تھا۔ یوں اس کی راہ مسدود رہی اور کم ہی دوسری سمت میں یہ آگے بڑھ سکی۔ ایک حد تک یہ پیپلزپارٹی سے بہتر ہے کہ اگر ڈھونڈیں تو نبیل گبول اِس کے ٹکٹ پر جیتنے والوں میں مل جائیں گے۔ پیپلزپارٹی نے تو تاج حیدر کو بھی ٹکٹ نہیں دیا، نہ مسرور احسن کو، جن کی بڑی قربانیاں ہیں۔ معاملہ حساس ہے۔ سندھ کو سازشوں سے بچانا ہے۔ اسے بانٹے رکھنے کی سازش کم از کم چالیس برس پرانی ہے۔ یہ واحد صوبہ ہے جہاں شہری اور دیہی علاقوں کو اس آئین کے تحت کوٹہ سسٹم کے نام پر تقسیم کیا گیا جسے قوم ایک متفقہ آئین قرار دیتی ہے۔ یہ سوال تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ اگر یہ آئین متفقہ تھا،جو یہ تھا،تو سندھ کو تقسیم کرنے والے بھی اس تقسیم پر متفق تھے۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ یہ تقسیم مردم شماری کی بنیاد پر ہونے والی دیہی اور شہری تقسیم نہیں ہے کہ وہ آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ من مانی تقسیم ہے۔ کراچی حیدرآباد اور سکھر شہری علاقے قرار دیئے گئے اور باقی سندھ دیہی اور کہا گیاکہ دس سال میں دیہی علاقوں کو تعلیم وغیرہ میں شہری علاقوں کے برابر لایا جائے گا اور کوٹے کے لئے کی گئی تقسیم ختم کر دی جائے گی۔ یوں ہوا نہیں، ارادہ یوں کرنے کا تھا بھی نہیں۔کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ یہ ضرور ہوا کہ ضیاء الحق کے زمانے میں کوٹہ سسٹم مزید دس سال کیلئے بڑھا دیا گیا۔ وہ جو جنرل ضیاء الحق کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے، آئین میں اس آمر کی کوٹہ سسٹم میں اضافہ کی ترمیم کو آنکھوں سے لگاتے اور دل سے عزیز رکھتے ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ وہ اضافی دس سال بھی گزر گئے،1973ء کے آئین میں دےئے گئے کوٹے کو بیس سال گزرے، دیہی علاقوں کو بہتر کرنے کیلئے کچھ کیا نہیں گیا اور 1993ء میں نواز شریف کی حکومت نے اس مدت میں مزید اضافہ کر دیا، بیک جنبش قلم بیس برس کے لئے یعنی کوٹہ سسٹم بیس برس آگے، 2013ء تک بڑھا دیا گیا۔ اس ترمیم کی حمایت قومی اسمبلی میں اُس وقت موجود تمام سیاسی جماعتوں نے کی اور اب 2013ء بھی گزرنے ہی والا ہے،کوٹہ سسٹم مگر ختم ہونے کے آثار نہیں ہیں اور اس غریب اور نظر انداز کئے گئے صوبے کے دیہی علاقے وہیں ہیں جہاں کبھی تھے۔ بیس برس پہلے، چالیس برس پہلے اور اس سے بھی پہلے، ہمیشہ سے اور ایسے ہی رہیں گے پتہ نہیں کب تک کہ ان علاقوں پر حکمرانوں کی توجہ کم ہی نہیں بہت کم ہے اور یوں شہری اور دیہی تقسیم بھی پتہ نہیں کب تک برقرار رکھی جائے گی۔ اس تقسیم میں فائدہ عوام کا نہیں حکمرانوں کا، بااثر خاندانوں کا جو غریب اور پسماندہ عوام کے نام پر سہولتیں حاصل کرتے ہیں، تعلیمی اداروں میں، ملازمتوں میں، وزارتوں میں۔ مگر یوں ہونا نہیں چاہئے۔ یہ شہری اور دیہی تقسیم اس صوبے کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، نفرتوں کو ہوا دے رہی ہے ۔جن کو ان کا حصہ مل جاتا ہے وہ خوش ہوتے ہیں، جو محروم رہ جاتے ہیں اندر ہی اندر کڑھتے ہیں اور اپنا حصہ یا حق حاصل کرنے کیلئے کسی بھی انتہا تک جانے کو تیار رہتے ہیں،تیار کئے جا سکتے ہیں۔تو اگر آپ اس صوبے کے نمائندے ہیں، دیہی ہوں یا شہری تو آپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے،اس تقسیم کو ختم کرنے کی۔کوٹے کا معاملہ تو آئین میں طے ہو گا، ایک ترمیم ہو گی، نیت نیک ہوئی تو اس میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا مگر کچھ معاملات تو ایسے ہیں جنہیں آپ مل کر حل کر سکتے ہیں مثلاًصوبے میں حکومت بنانے کا معاملہ۔ یہ آپ دونوں پہلے بھی حل کرتے رہے ہیں۔ایک بار پھر مل بیٹھیں۔ پیپلزپارٹی فراغ دلی کا ثبوت دے اور ایم کیوایم اپنا رویہ ذرا نرم کرے تو یہ مسئلہ کہ صرف دیہی علاقوں کی حکومت ہے ،وہ کیا کہتے ہیں،چٹکیوں میں حل ہو سکتا ہے، ہونا چاہئے۔
تازہ ترین