• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ ان دنوں یہ ایک اور نئے اور بدلے ہوئے نواز شریف ہیں جو باقی صوبوں کے عوام کی طرح سندھ کے اکثر لوگوں کی طرف سے بھی خیر سگالی کی فصل کاٹتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کو جو اس کے اپنوں یا پرایوں کی طرف سے لگائے گئے رستے پرانے زخم ہیں ان کے لگانے میں کچھ ہاتھ کل کے نواز شریف کا بھی ہے۔ جن سے اب ہرکوئی فائر مین کا کردار ادا کرنے کی توقع کر رہا ہے اور توقع کرنی بھی چاہئے۔
سچ تو یہ ہے کہ نواز شریف اور سندھ (جس سے مراد سندھ کے لوگ ہیں) کے درمیان محبت اور نفرت کے ملے جلے تعلقات رہے ہیں۔ ایک وہ نواز شریف ہے جو جب پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے تو سندھ کے کچے میں بے زمین ہاریوں میں زمینیں تقسیم کرتے نظر آتے تھے (یہ اور بات ہے کہ یہ زیادہ تر زمینیں وڈیروں نے اپنے خاص لوگوں کے نام پر حاصل کی تھیں) وہ نواز شریف جس نے دیہی سندھ سے ڈاکوؤں کا قلع قمع کیا تھا۔ مجھے اس دور میں نوکریاں حاصل کرنے والے سندھی نوجوان انجینئروں اور ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ اگر یہ نوکریاں پیپلزپارٹی کے وزیروں کے ہاتھ میں ہوتیں تو وہ بیچ رہے ہوتے لیکن نواز شریف نے یہ نوکریاں میرٹ پر دیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کے ایسے ہزاروں چھوٹی بڑی نوکریوں والے نوجوان بھی نواز شریف کی حکومتوں میں بیروزگار کر دیئے گئے جن کا قصور یہ تھا کہ ان کو نوکریاں بے نظیر کے سابقہ ادوار میں ملی تھیں، اب کی بار ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
نوازشریف کے ہی دور حکومت میں مئی 1992ء میں ٹنڈو بہاول کے بیگناہ لوگوں کا جعلی مقابلہ بتاکر قتل ہوا اور قتل ہونے والوں کو”بھارتی ایجنٹ“ قرار دے دیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں اس کی تصحیح کرلی گئی۔ فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل آصف نواز نے فوج کی طرف سے ٹنڈو بہاول کے قتل ہونے والوں کے لواحقین سے معافی مانگتے ہوئے حیدرآباد گیریژن کی تمام جنرل کمانڈ تبدیل کر دی۔ ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ جنرل آصف نواز شاید واحد جنرل گزرے ہیں کہ سندھیوں نے جاکر ان کی قبر پر اجرکیں چڑھائیں کہ ان کی فوج کی سربراہی میں سندھ میں فوجی آپریشن میں ڈاکوؤں کا قلع قمع ہوا۔
سندھ اور جمہوریت کے خلاف سازشوں میں غلام اسحاق خان نے سندھ پر یک نشست وزیر اعلیٰ کی حکومت قائم کرواکر سندھ کے اس وقت جینئن مینڈیٹ پیپلزپارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنے کی ریت قائم کی۔ نوازشریف بھی بطور وزیر اعظم تب کے ساجھے دار رہے۔ وہ سیاسی انتقام کا خوفناک دور تھا ۔نوازشریف کے ہی دنوں میں سندھ کے شہری علاقوں میں بشمول کراچی فوجی اور نیم فوجی آپریشن کئے گئے جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کی تنگ تاریک گلیاں نوگو ایریاز بنے۔ کراچی نے ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بننے والے کئی نوجوانوں کی لاشیں اٹھائیں۔ ان میں ایک بڑی اکثریت ایم کیو ایم کے کارکنوں کی تھی۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب نواز شریف نے سندھ میں پی پی پی کے خلاف ایم کیو ایم کو استعمال کر کے سندھیوں میں مستقل خوف کا سا ہیجان پیدا کئے رکھا۔جامشورو کے جنگلات میں ٹنڈو بہاول کے دیہاتیوں اور شاہ بندر کے پانیوں میں مرتضیٰ بھٹو کے نوجوان کارکنوں کا قتل ، پنو عاقل چھاؤنی میں سندھ کے پرانے قوم پرست رہنما یوسف جکھرانی اور گمبٹ خیرپور میرس کے علی حیدر شاہ پر تشدد اور فوجی آپریشن کے دوران قتل بھی ہوئے۔ انہی کی حکومت میں معمر تاریخ ساز سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید نظر بند کئے گئے جو نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران تادم مرگ نظر بند رہے۔
سندھ میں نواز شریف کو سندھ میں سیاسی طور پر دو نمبر وڈیروں ، قوم پرستوں اور جاگیرداروں پر تکیہ کرنے کو ترک کردینا چاہئے۔ مٹیاری کے جنگلات میں سندھ کے جاگیرداروں کی میزبانی میں شب بسری کرنا اور بات ہے، سندھ کے غریب سندھیوں کی زندگی کہیں اور ہے۔ وہ سندھ اور تھا آج سندھ اور ہے۔ دبنگ جاگیرداروں اور دو نمبر قوم پرستوں کے ذریعے سندھ کو فتح نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ کے لوگوں کے دل فتح کرنے کی کنجی کہیں اور ہے۔
نواز شریف نے بے نظیر کے قتل کے بعد جلتا ہوا سندھ دیکھا تھا۔ سندھ اب بھی ایسے ہی جل رہا ہے لیکن سندھ کے لوگوں کے دلوں میں یہ آگ اور عشق بہت قدیم ہے۔ نواز شریف پیپلزپارٹی کو انتخابات میں اس کے گھر سندھ میں مشکل وقت دے سکتے تھے اگر وہ سندھ کے لوگوں کے اس قدیم آگ اور عشق سے تعلق کو سمجھ لیتے کہ جس کو دو بڑے سیلابوں کے پانی بھی ان کے گھروں کے ساتھ نہیں بہا سکے تھے۔ اگر وہ سندھ پر سنجیدہ ہوم ورک کرتے۔ لگتا ہے کہ سندھ نے نواز شریف اور نواز شریف نے سندھ کو رائٹ آف کیا ہوا تھا۔ سندھ نہ آصف زرداری ہے اور نہ ہی ارباب غلام رحیم، نہ مہر جتوئی، نہ ممتاز بھٹو ہے۔ سندھ وہ پاؤں ننگے اور پیٹھ ننگے لوگ ہیں، سندھ وہ قیدی تھے جن کو انہوں نے شاید اپنے جیل کے دنوں میں قریب سے ایک جھلک دیکھا ہو۔ نواز شریف نے اس سندھ کو ان لوگوں کی آنکھوں اور چہروں میں دیکھا ہو گا جب وہ سندھ میں سیلاب کے دنوں میں نکلے تھے۔ یہ لوگ صدیوں سے وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری، جرگوں اور قبائلی جھگڑوں کے پسے ہوئے ہیں۔ پیروں، میروں، وڈیروں اور پپلیوں اور لیگی وڈیروں کے ستائے ہوئے۔ روحانی ڈکٹیٹرشپ کے شکار لوگ۔ اگر پینتالیس سال قبل پنجاب کے لوگ سندھی بھٹو کو سر آنکھوں پر بٹھا سکتے ہیں تو پنجابی نواز شریف کو سندھی کیوں نہیں قبول کر سکتے!
نواز شریف جاگیردار نہیں سرمایہ دار ہیں اور اس سرمایہ دار نواز شریف کو جب بے رحم تاریخ نے اتنی واضح اکثریت کا موقع دیا ہے تو وہ زبردست وفاقی قانون سازی کے ذریعے صدیوں پرانا جاگیردارنہ نظام ختم کرکے اصلی زرعی اصلاحات کے ذریعے سندھ کے بے زمین کسانوں کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ دیہی صنعتی سماج و متوسط طبقات کو آگے لا سکتے ہیں۔ قسمت کا یہ بچہ جسے جمہوریت نے اس ملک میں اپنایا ہے ملک سمیت سندھ کے بچوں کی قسمت بدل سکتا ہے۔اصل تاریخی دھماکہ یہ بھی کردے۔ فیڈرل لینڈ کمیشن بھی ان کی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ سندھ کے جنگلات اورکچے یا دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر با اثر لوگوں کے قبضے ختم کرائے۔ مجھ سے کسی نے بار بار پوچھا،کیا وہ سندھ یونیورسٹی کی طالبہ ثمینہ لاشاری کے ساتھ زیادتی کے ملزم ایس ایچ اوکو کیفر کردار تک پہنچوا سکتے ہیں؟ یا یہ سب اٹھارہویں ترمیم کی نذر ہوئے! ادھر کارو کاری کو ختم کرکے اسے دہشت گردی کے قانون میں بدلیں۔ نواز شریف اقلیتوں کی بیٹیوں کی زبردستی تبدیلی مذہب کے ذریعے اغواء اور زیادتیوں کی بیخ کنی کردیں۔ ڈاکو راج ایک بار پھر خاتمے کا متقاضی ہے کہ جس کے ہاتھوں اب شیر خوار بچوں کا بھی برائے تاوان اغوا کیا جا رہا ہے۔ جس دن سندھ کی اقلیت، عورت اور ہاری آزاد ہوگا سندھ فتح ہوگا کہ سندھ ابھی گیدڑوں نے نہیں کھایا۔ سندھ گیدڑ کبھی نہیں کھاسکتے کیا نیم شب گیدڑوں کا راج ملک پر سے ختم ہوا!
بلوچستان کی طرح سندھ کو بھی غائبستان کے منہ زور طاقت کے اندھے گھوڑوں جیسی کالے شیشوں والی سفید ڈبل کیبن گاڑیوں پر سوار ہرکاروں کے ہاتھوں اغوا شدہ قوم پرست کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ نواز شریف کی حکومت کا اصل میں پہلا دن تب شروع ہوگا جب بقول شخصے زندانوں کے در وا ہوں گے، نہ صرف غائب شدہ شہری اور سیاسی کارکن اپنے گھروں کو زندہ سلامت لوٹیں گے بلکہ ان کے اغوا کنندگان کو ہتھکڑی بھی لگے گی۔ سائیں! ہم دیکھیں گے!
تازہ ترین