• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے میڈیا میں کچھ دنوں سے خواتین، حجاب، پردہ اور جنسی تشدد کے متعلق تند و تیز بحث چھڑی ہوئی ہے جس کا آغاز اہم ذمہ داری پر فائز شخص کے ریمارکس سے ہوا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو شخص جتنے حساس یا اہم عہدے پر براجمان ہو اسے کوئی بات کرتے وقت اتنا ہی ذمہ دار یا محتاط بھی ہونا چاہئے۔ اگر ہم انسان کو اشرف المخلوقات تسلیم کرتے ہیں تو پھر اولادِ آدم وہوّا میں تمام امتیازی رویے بھی ختم ہونے چاہئیں۔ تمام انسان قابلِ شرف ہیں جب تک کہ کوئی از خود انسانیت سے گر نہ جائے۔ہیومن رائٹس کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو حقوق اور آزادیاں آپ اپنے لئے پسند کرتےہیں، وہ دوسروں کے لئےبھی پسند فرمائیں۔ کسی بھی نظریے کو جواز بنا کر دوسروں کے حقوق اور آزادیاں چھیننےکا کسی کو بھی حق نہیں۔

حقوق نسواں کے آج ہم جس قدر بھی بلند بانگ دعوے کریں لیکن تاریخی طورپر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ںہ صرف خواتین کے حقوق کا استحصال کیا جاتا رہا بلکہ مختلف النوع بہانے تراشتے ہوئے اس استحصال کو جواز بھی بخشا جاتا رہا۔قدیم زمانوں کی تو سمجھ آتی ہے کہ انہیں اپنی آن بان شان، حکمرانی و سطوت کوقائم کرنے اور قائم رکھنے کے لئے پہلے جسمانی طور پر طاقتور جنگجوئوں کی ضرورت تھی، عورت اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے ان کے اس معیار پرپورا نہیں اترتی تھی اس لئے وہ انہیں اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہی سمجھتے تھے یا پھر اولاد کے حصول کا ذریعہ ۔ اسے ناقص العقل ہی نہیں اور بھی بہت کچھ قرار دیا جاتا رہا۔ قبائلی ذہنیت میں اسے مردوں کی پراپرٹی خیال کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور ناموس کا نظریہ پیش کیا گیا۔ آج زمانہ بدل چکا ہے، آج انسانی برتری کا معیار جسمانی طاقت نہیں شعوری عظمت ہے۔ سائنسی و تکنیکی ترقی نے بالفعل قدیمی نظریات کو فارغ کردیا ہے مگر اس خطۂ ارضی کے جن علاقوں پر شعوری روشنی پوری طرح حاوی نہیں ہوسکی، وہیں جنونیت کی قدیمی سوچیں اپنی بالادستی کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں۔

آج جب درویش یہ سوال اٹھاتا ہے کہ تم لوگ تقریریں کرتے نہیں تھکتے کہ عورت مرد کے جوڑے بنائے گئے ہیں لیکن کیا جوڑے کا مطلب سمجھتے ہو؟ آپ عورت و مرد کی برابری یا مساوات پر باچھیں کھولے دعویدار بن کر کھڑے ہو جاتے ہو، مغرب اور مغربی اقدار پر الزامات عائد کرتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہیں کرتے مگر جونہی بات آئے عورت کو وراثت میں حصہ دینے کی وہاں مخالفانہ حجتیں تلاش کرنے لگے جاتے ہو۔ہماری سوسائٹی میں خواتین کے خلاف جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے جس کا احاطہ کسی ایک کالم میں ممکن نہیں۔ جنسی تشدد تو ان میں سے صرف ایک ہے۔ ہمارا سوال محض یہ نہیں ہے کہ اس غیر انسانی سوچ کی جڑیں کہاں سے پھوٹی ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی میں ان ظالمانہ امتیازی سوچوں اور رویوں کو جواز بخشنے والے کس شعوری سطح کے لوگ ہیں؟

ایک صاحب نے فرمایا کہ اگر بلّے کے سامنے کھلا گوشت پڑا ہوگا تو وہ اسے کیوں نہیں کھائے گا؟ یہ کیسی سوچ ہے؟ آج ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں موجود جنسی تشدد کی وجہ فحاشی ہے، شاید ایسے لوگوں کو فحاشی کے اصل معنی تک معلوم نہیں ہیں۔ فحاشی کا مطلب ہے بدتہذیبی، اگر آپ نے ساری زندگی جانوروں کی طرح گزاری ہو، عقل شعور، فہم، تحقیق یا نالج کا اس میں سےکبھی گزر ہی نہ ہوا ہو تو پھر کیسے معلوم ہوگا کہ تہذیب و شائستگی کس عظمت کا نام ہے؟ انسان اور بلّے میں فرق کیا ہے؟ پھر تو آپ ہر قاتل کو یہ جواز دے دیں گے کہ مقتول کی کمزوری نے قاتل کو جارحیت کا جواز بخشا، ہر چیر پھاڑ کرنے والا کمزوروں کو کھا جائے گا اگر اصول و ضوابط نہ ہوں تو پھر انسان و حیوان میں فرق کیا رہے گا؟ہماری سوسائٹی میں ناموس زن کا نگہبان یا ٹھیکیدار مرد کیوں ہے؟ ہم خواتین کو تعلیمی، مالی اور شعوری طور پر اتنا مضبوط ہوتے کیوں نہیں دیکھنا چاہتے جس میں وہ ناموس سمیت اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے کسی کی مرہون منت نہ رہے۔

خواتین نے کون سے اور کیا کپڑے پہننے ہیں یہ ان کا ذوق اور ان کا حق ہے،تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی مدلل وجوہات ضرور سامنے لائی جانی چاہئیںورنہ یہ معاملہ اُن خواتین پر ہی چھوڑ ینا چاہئے۔کسی کے اپنے ذہن میں گندگی یا درندگی ہے تو وہ اپنی پراگندہ سوچ کی صفائی کا اہتمام کرے نہ کہ دوسروں کے لئے تلقین شاہ بنے۔ جانوروں کے ساتھ کمینگی اور قبرستانوں میں مردہ خواتین پر جنسی حملے کی خبریں کس نے نہیں پڑھیں، سنیں۔ کیا اس کی وجہ بھی بے حجابی ہوتی ہے؟ اس تہذیبی سربلندی کے دور میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خواتین سے ان کی شناخت کا بنیادی حق چھیننے کی کوشش کرے۔

تازہ ترین