• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کے باوجود کہ سندھ کے عوام میں وزیراعظم نواز شریف کیلئے کافی نرم گوشہ ہے اور ان سے کافی توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہیں‘ پارلیمینٹ میں ان کے وزیراعظم کے طور پر منتخب ہونے‘ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے اور وفاقی کابینہ کے حلف اٹھانے کے بعد سندھ کے عوام کے وسیع حلقوں میں اس وقت یہ بات زیر بحث ہے کہ کیا میاں صاحب سندھ کو بھول گئے ہیں؟ سندھ کے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونے کے خاص طور پر دو اسباب بتائے جاتے ہیں‘ ایک تو یہ کہ جب پارلیمینٹ میں وزیر اعظم کا انتخاب ہورہا تھا اور جب ایوان صدر میں میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم حلف اٹھا رہے تھے تو دونوں مواقع پر سندھ کے اکثر عوام کی نظریں سندھ کے قوم پرست رہنماؤں سید جلال محمود شاہ‘ ڈاکٹر قادر مگسی اور ایاز لطیف پلیجو کو تلاش کررہی تھیں۔
انتخابات سے چند ماہ پہلے نواز لیگ ان تینوں رہنماؤں کی پارٹیوں کے کافی نزدیک آئی تھی‘ بعد میں ان تینوں پارٹیوں نے نواز لیگ کے ساتھ دس جماعتی اتحاد کے پلیٹ فارم سے سندھ بھر میں انتخابات میں حصہ لیا۔ سید جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے ساتھ نواز لیگ نے ایک چھ نکاتی اتحاد بھی کیا تھا‘ شاید سید جلال محمود شاہ نے بھی نواز لیگ کی طرف سے اس بے اعتنائی کو سنجیدگی سے محسوس کیا لہٰذا وزارت عظمیٰ کی حلف کی تقریب کے بعد سید جلال محمود شاہ نے ایک اخباری بیان جاری کیا جو کم سے کم سندھ کے اخبارات میں ضرور نمایاں طور پر شائع ہوا ہے‘ اس بیان میں انہوں نے بین السطور شکایتی لہجہ اختیار کیا ہے اور خاص طور پر نواز لیگ کے ساتھ ان کی پارٹی کے چھ نکاتی اتحاد کا ذکر کیا ہے‘ ان کے بیان کے لہجے سے محسوس ہورہا ہے کہ شاہ صاحب کو بھی یقین نہیں کہ میاں نواز شریف اس اتحاد کے چھ نکات پر توجہ دیں گے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں کوئی پیشرفت کریں گے۔ سندھ کے سیاسی حلقوں نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ بہرحال سندھ کے ایک سینئر سیاستدان ممتاز بھٹو کو حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کرنے کیلئے مدعو کیا گیا اور انہیں اسلام آباد میں مناسب پروٹوکول بھی دیا گیا تھا مگر یہی سیاسی حلقے یہ سوال کررہے ہیں کہ جب ممتاز بھٹو کو مدعو کیا گیا مگر اوپر ذکر کئے گئے تین قوم پرست رہنماؤں کو ان تقاریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تو کیا اچھا ہوتا کہ کم سے کم سندھ کی دو دیگر بزرگ سیاسی شخصیتوں رسول بخش پلیجو اور جی ایم سید کے بڑے فرزند سید امیر حیدر شاہ کو بھی ان تقریبات میں شرکت کی دعوت دی گئی ہوتی‘ اس کا سندھ کے عوام کی سیاسی نفسیات پر کافی مثبت اثر ہوتا۔ شاید ملک کے دیگر صوبوں کے عوام سید امیر حیدر شاہ سے ناواقف ہوں‘ شاہ صاحب کسی زمانے میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں‘ اس کے بعد وہ عملی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہی رہے مگر حال ہی میں انہوں نے جئے سندھ کے مختلف گروپوں کو دوبارہ متحد کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔
میاں صاحب کی طرف سے سندھ کو بھول جانے کے تاثر کا ایک دوسرا سبب یہ بیان کیا جارہا ہے کہ میاں صاحب نے اب جو 25 رکنی کابینہ بنائی ہے تو اسے پنجاب کابینہ کہا جارہا ہے جبکہ کچھ حلقے تو اس کابینہ کو لاہور کابینہ کہہ رہے ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ اس کابینہ کے چار وزراء کا ڈائریکٹ تعلق لاہور سے ہے مگر ایک دو اور وزراء جن کا تعلق ویسے تو پنجاب کے دیگر اضلاع سے ہے مگر وہ بھی کافی عرصے سے لاہوری ہی ہیں‘ اس کابینہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اکثر اہم وزارتیں پنجاب کے وزراء میں بانٹی گئی ہیں جن میں خاص طور پر وزارت داخلہ‘ وزارت خزانہ‘ وزارت پانی و بجلی‘ وزارت پیٹرولیم‘ وزارت قانون‘ وزارت اطلاعات اور وزارت منصوبہ بندی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں دو مشیر لئے گئے ہیں ان کا بھی تعلق پنجاب سے ہے‘ البتہ جو دو معاون لئے گئے ہیں ان میں سے ایک کا تعلق بلوچستان سے ضرور ہے مگر شاید ان کو اسلام آباد اس وجہ سے بلایا گیا ہے تاکہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے لئے کوئی مسائل پیدا نہ کریں‘بعض اطلاعات سے ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ کسی دباؤ میں ہیں مگر ایسی اطلاعات سے چھوٹے صوبوں میں تاثر پیدا ہوسکتا ہے کہ اندیشے درست ثابت ہورہے ہیں‘ باقی تین چھوٹے صوبوں پر پنجاب ہی راج کرے گا۔ یہ توقع کی جارہی تھی کہ ملیر کراچی سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبر حکیم بلوچ کو وفاقی کابینہ میں کوئی اہم وزارت دی جائے گی کیونکہ وہ 2013 ء کے انتخابات میں پی ایم ایل (ن) کے ٹکٹ پر سندھ میں منتخب ہونے والے واحد ایم این اے ہیں‘ حکیم بلوچ صاف ستھرے کیریئر کے حامل ہیں اور اب تک وہ جس پارٹی میں بھی رہے، اس پارٹی کے لئے کوئی مسائل پیدا نہیں کئے مگر وہ لابنگ کے آرٹ سے واقف نہیں لہٰذا ابتدائی اطلاعات کے مطابق وہ کسی گنتی میں ہی نہیں تھے مگر بعد میں شاید کسی معقول آدمی کے مشورے پر انہیں بھی کابینہ میں شامل کیا گیا مگر انہیں مملکتی وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل کیا گیا ہے اور ایک ایسی وزارت دی گئی ہے جسے مرا ہوا گھوڑا ہی کہا جاسکتا ہے‘ ان کے علاقے کے لوگ سوال کررہے ہیں کہ حکیم بلوچ ایسی وزارت کے ذریعے اپنے علاقے اور سندھ کی کیا خدمت کریں گے۔
واضح رہے کہ کافی عرصے سے سندھ کے اکثر علاقوں میں ٹرینیں چلنا بند ہوگئی ہیں اور پٹڑیاں بھی کچھ عناصر اکھاڑ کر فروخت کرچکے ہیں‘ بہرحال حکیم بلوچ کو مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ چارج سنبھالنے کے بعد وہ سندھ میں ختم ہونے والی ٹرینوں کے روٹس کے سروے کرکے ان کو بحال کرنے کے بارے میں ایک ماسٹر پلان تیار کرکے کابینہ کو پیش کریں اور پھر دیکھیں کہ اس کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ سندھ میں حکیم بلوچ کے مقابلے میں فنکشنل لیگ کے ایم این اے پیر صدر الدین شاہ راشدی اور غلام مرتضیٰ جتوئی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے جن کو بہرحال مکمل وزیر بنایا گیا ہے حالانکہ ان کو بھی جو وزارتیں دی گئی ہیں وہ مقابلتاً کم اہم ہیں‘ مثال کے طور پر صدر الدین شاہ کو اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت دی گئی ہے جہاں تک مرتضیٰ جتوئی کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی پارٹی این پی پی کو نواز لیگ میں ضم کرلیا ہے‘ ان کو وزارت صنعت دی گئی ہے‘ خاص طور پر 18 ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد مرکز میں وزارت صنعت کے قیام کا کوئی جواز نہیں‘ این پی پی جس کی بنیاد ان کے والد اور سندھ کے بزرگ سیاستدان غلام مصطفی جتوئی نے رکھی کو نواز لیگ میں ضم کرنے کے سلسلے میں مرتضیٰ جتوئی کے فیصلے کو ان کے حمایتی حلقوں میں بھی سیاسی خودکشی کہا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ حلقے دو اسباب بیان کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مرحوم جتوئی صاحب نواز شریف سے خوش نہیں تھے کیونکہ 90 ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں پی پی حکومت کے خاتمے کے بعد انہیں اس وعدے پر نگراں حکومت کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا کہ انتخابات کے بعد بھی انہیں ملک کا وزیر اعظم ہی بنایا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف اس ارینجمنٹ کا حصہ تھے‘ ان انتخابات میں غلام مصطفی جتوئی نے مورو کی نشست سے آصف زرداری کو شکست دی تھی مگر انتخابات کے بعد نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ اس وعدے سے پھرگئے اور غلام مصطفی جتوئی کے بجائے نواز شریف کو پاکستان کا وزیر اعظم بنایا گیا‘ اس کے علاوہ چند دن پہلے مرحوم جتوئی کے ایک وفادار ریٹائرڈ سینئر بیورو کریٹ نے مجھے بتایا کہ ایک مرحلے پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور جتوئی صاحب کے درمیان رنجشیں کافی حد تک دور ہوگئی تھیں اور بقول ان کے مرحوم جتوئی کو بے نظیر بھٹو نے تین بار آفر کی کہ انکل آپ پی پی میں شامل ہو جائیں اور جو چاہیں پارٹی میں عہدہ دیا جائے گا مگر جتوئی صاحب نے بڑے پیار سے یہ آفر قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری دعائیں آپ کیلئے ہیں مگر اس مرحلے پر میں اپنی پارٹی کا وجود ختم کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ پارلیمینٹ میں نواز شریف کی طرف سے وزیر منتخب ہونے کے بعد جن پارلیمنٹیرینز نے تقریریں کیں ان میں سے سندھ کے عوام سب سے زیادہ تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی کی تقریر کی بڑی تعریف کررہے ہیں‘ خاص طور پر نواز شریف کیلئے ان کا یہ مشورہ کافی مقبول ہوا ہے کہ سارے صوبوں کو ساتھ لیکر چلیں۔ اب لوگ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ دیکھیں نواز شریف صاحب اس مشورے پر کس حد تک عمل کرتے ہیں۔
تازہ ترین