• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد جمیل خان جالبی بذاتِ خود حیرت انگیز شخصیت اور وسیع تر صلاحیتوں کے مالک تھے۔ دریا میں رہے اور تری سے بچ گئے۔ یعنی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھے ،جس سےمتعلق کہا جا تا ہے کہ’’ سرکار کے حصّے میں ٹیکس کم، عملے کے حصّےمیں انکم زیادہ آتی ہے‘‘ لیکن جالبی صاحب اس ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ ترین افسر اور کمشنرانکم ٹیکس ہونے کے باوجود اس قضیے سے دُور رہے۔ سرکاری تن خواہ اور مراعات کے ساتھ نیک نامی سمیٹ کر ریٹائر ہو ئے،مگر فارغ نہ رہ سکے۔ 

مقتدرہ قومی زبان کے صدرنشین بنا دیئے گئے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو جامعہ کراچی کا شیخ الجامعہ کا دفتر ان کا منتظر تھا۔اس نیک نامی کے لیے بھی انہوں نے اپنا پتّا مارا اور اپنی صلاحیتوں کے دھارے کومطالعے کی مثبت راہوں پرڈال کر خود کو اگلو میں بند کر کے بیرونی سرد ہواؤں سے بچالیا ۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں علمی و ادبی کام کرنے کے زیادہ مواقع مل گئے۔

جالبی صاحب کے علمی کارناموں کی سمتیں اور جہتیں تو بہت ہیں، جنہوں نے ان کے ہمہ صفت کاموں ہی کو نہیں، ان کے نام کو بھی ان کے چہرہ کی طرح روشن کیے رکھا۔ البتہ، بچّوں کے لیے لکھی گئی ان کی ’’حیرت ناک کہانیاں‘‘،(اس سے قطع نظر کہ کتنی سچّی ہیں)بے حدمتاثر کرنے والی ہیں۔ کہانیاںتعداد میں توصرف دو ہی ہیں۔چھن چھن چھن چھن اور ــبید کی کہانیـ۔مگر دونوں ہی مافوق الفطرت ماحول کا تانا بانا بُن کر لکھی گئی ہیں۔ چھن چھن چھن کے لیے انہوں نےجو ماحول بنایا، وہ نہ صرف دل چسپ ہے، بلکہ اس میں پراسراریت کی جھلک بھی صاف نظر آتی ہے۔ 

ایک عکس ملاحظہ کیجیے، ’’مسجد ہمارے گھر سے کوئی دوسوگز کے فاصلے پر ہوگی ،اس سے دوسو گز کے فاصلے پر ایک اندھا کنواں تھا، جو’’بابوکا کنواں‘‘ کہلاتا تھا۔ مشہور تھا کہ اس میں ایک سرکٹارہتا ہے۔یہ سرکٹا اندھیری راتوں میں کنویں سے نکلتا اور محلّے کے گھروں پر دستک دیتا ۔‘‘ کہانی کی خوبی اس کی بُنت اور جُزیات کا بیان ہے ،جو اسے مزید سنسنی خیز بنادیتا ہے۔ داستان گوئی کے اس انداز نے اسے نہ صرف دل چسپ بنا یا ، بلکہ پڑھنے والے کی رَگ رَگ میں سنسنی بھی دوڑ ا دی۔ اِک چھن چھن کی آواز قاری کا مسلسل پیچھا کرتی رہتی ہے، یہاں تک کہ لحاف میں دبک جانے کے بعد بھی خوف کا غلبہ رہتا ہے۔

اپنے ہم جماعت اور عزیز دوست، انور عالم صدیقی کا قصّہ اور اس سے وابستہ سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی باتیں بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ایک رات قریباًدس بجے میرے ہم جماعت اور عزیز دوست ،انور عالم صدیقی آئے اور کہنے لگے کہ ’’رات زیادہ ہوگئی ہے۔ سنیما سے آ رہا ہوں۔ اگر اکیلا جاؤں گا تو والد صاحب ناراض ہو ں گے، تم ساتھ چلو، بہانہ بنائیں گے کہ میں تمہارے یہاں پڑھ رہا تھا۔‘‘ ہم دونوں سائیکل پر بیٹھ کر چل نکلے۔ انور کو اس کے گھر چھوڑا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس چلا آیا۔ گھر کے قریب پہنچا تو ایک پہیے کی ہوانکل گئی۔ 

مَیں جلدی سے سائیکل سے اترا اور سائیکل کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر گھر کی طرف چلنے لگا، تو محسوس کیا کہ کسی نادیدہ قوت نے میری سائیکل مضبوطی سے پکڑ لی ہے۔ مَیں نے اسے آگے بڑھانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ کچھ دیر بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اب سائیکل گرفت سے آزاد ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے۔ سو،مَیں نے سائیکل کو جیسے ہی آگے بڑھایا ، کسی نے بید کی مونٹھ میری گردن میں ڈال کر مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ مَیں زور زور سے چیخنے لگا۔ میری چیخیں سُن کر آس پاس کے لوگ گھروں سے باہرنکل آئے ۔لوگوں کے آتے ہی بید میری گردن سے ہٹ گئی اورمَیں چکرا کر زمین پر گر پڑ ا،لوگوں نے مجھے اٹھایا اورگھر تک پہنچادیا۔‘‘

جالبی صاحب کی کہانی آگے بڑھتی رہی اورزندگی کے معمولات چلتے رہے۔ پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔ پیرالہٰی بخش کالونی میں شاہد احمد دہلوی رہتے تھے، جالبی صاحب کا گھر بھی اسی کالونی میں تھا۔ ان کے ہاں آنا جانا ،ملا قا تیں روز مرہ کا معمول بن گئیں۔ ایک دن رات تین بجے محفلِ موسیقی سے واپسی پر جو واقعہ پیش آیا ،اس کی سنسنی بھی اس کہانی میں پھیلی ہوئی ہے۔ اپنے چمک دار، صفا چٹ گنج پن کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں نے دیکھا کہ کوئی چیز میرے گالوں پر جم گئی ہے۔ ہاتھ پھیرا تو وہ خون تھا، جو میرے سر سے بہہ کر گالوں تک آ گیا تھا ۔آئینہ اُٹھایا تو سر میں ایک زخم تھا۔پھر یہ ہوا کہ سر کے بال تیزی سے گرنے لگے اور زخم کا وہ نشان آج تک میرے سر میں موجود ہے۔‘‘حیرت انگیز ماحول سے جُڑی دوسری کہانی ’’بید کی کہانی‘‘کے اپنے کرشمے ہیں۔ 

اس کہانی میں انہوں نے اپنے دوستوں کا ذکر بھی کیا ہےاور سلیم احمد، انور عالم صدیقی ، ماہرِ موسیقی استاد چاند خان اور ابنِ انشا کے تذکرے کو اس کہانی کا جز و بنا کر اخلاقی سہارے کے طور پر مدد لی ہے۔ جو بید" چھن چھن چھن چھن "کہانی میں کھوگئی تھی، دوبارہ کہانی میں شامل ہوگئی ۔یہ کہانیاں در اصل ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی بیٹیوں سمیراجمیل اور فرح جمیل کی فرمائش پرتحریر کیںاب دونوں بیٹیاں نہ صرف صاحبِ اولاد ہیں بلکہ ان کی اولاد بھی بال بچّوں والی ہے، لیکن ہر پڑھنے کا شوقین بچّہ آج تک ان سے فیض یاب ہورہا ہے۔

جالبی صاحب نےاپنے لیے صدقۂ جاریہ کے بہت سے دَر کھولے ۔ جن میں سرِفہرست ان کی قدیم ’’قومی انگریزی اردو لغت‘‘ نویسی ہے،تو بچّوں کے لیے’’حیرت ناک کہانیاں ‘‘لکھ کر نہ صرف بچّوں کے ادب میں اپنا نام شامل کر وایابلکہ دیگر ادیبوں کو بھی بچّوں کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی ۔ بچّوں کے لیے ان کی بارہ کہانیاں 2004ء میں رباب پبلی کیشنز ،راول پنڈی سے شایع ہوئیں۔ جب کہ ـ’’حیرت ناک کہانیاں‘‘پُر اثر یت اور پراسراریت کے باعث سندھی زبان میں بھی ترجمہ کی گئیں۔

تازہ ترین