• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش مند عالمی طاقت کو جب کام یابی حاصل نہ ہوسکی اور اُسے بھاری جانی ومالی نقصان اُٹھا کر واپس ماسکو کا رُخ کرنا پڑا، تو اُس نے اِس ناکامی کے ذمّے داروں میں پاکستان کو بھی شامل کرلیا اور یہی وہ موقع تھا، جب روس نے خود کو زخم خوردہ قرار دیتے ہوئے پاکستان سے نظریں پھیر لیں۔ تاہم، اِس سے بھی قبل ایک اور واقعہ سفارتی محاذ پر ہوا تھا۔ پاکستان نیا نیا آزاد ہوا تھا اور لیاقت علی خان مُلک کے پہلے وزیرِاعظم کی حیثیت سے سویت یونین کی دعوت پر ماسکو جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ 

دورے کا دعوت نامہ پہلے ہی قبول کرلیا گیا تھا، روانگی کا شیڈول بھی طے ہوگیا تھا، پھر نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ نوزائیدہ مملکت کے پہلے وزیرِ اعظم کے پہلے غیر مُلکی دَورے کے جہاز کی سمت تبدیل ہو کر ماسکو کی بجائے واشنگٹن کی طرف ہوگئی اور یہ اِس بات کا اعلان تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں الگ حیثیت سے قائم ہونے والی مملکت، اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے مستقبل کے لیے ’’امریکی بلاک‘‘ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

اِس فیصلے پر ماسکو کا کبیدہ خاطر ہونا اور اپنی مخالف عالمی طاقت کے سامنے ہزیمت کا احساس ایک فطری اَمر تھا۔ بہرکیف، زخم مندمل ہونے میں کافی وقت لگا، لیکن تعلقات میں سردمہری برقرار رہی۔ پھر جب سویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں، تو واشنگٹن میں اِتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اکیلا اُس فوجی یلغار کے سامنے بند باندھ سکتا،لہٰذا اِس مقصد کے لیے پاکستان کا کندھا استعمال کیا گیا۔ 

یہ دوسرا موقع تھا، جو روس کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ’’ مُلکوں سے تعلقات میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں‘‘ تو پاکستان کی خوش قسمتی رہی کہ اس کی جغرافیائی صُورتِ حال غیر معمولی طور پر اپنے پڑوسی ممالک کے لیے ہی نہیں، عالمی طاقتوں کے لیے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اِس کے علاوہ کئی دوسرے عوامل بھی تھے کہ کئی دہائیوں بعد2012 ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے صدرِ مملکت، آصف علی زرداری کی قیادت میں روس سے تعلقات میں بہتری کے لیے پیش رفت کی۔ 

پاکستان اور روس میں قربتیں
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف دورۂ پاکستان کے دوران وزیرِاعظم عمران خان سے ملاقات کررہے ہیں

اُس وقت کی وزیرِ خارجہ، حنا ربانی کھر نے روس کا دورہ کیا۔ صدر آصف زرداری کی جانب سے اپنے روسی ہم منصب، ولادیمیر پیوٹن کو دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن کا افتتاح کرنے سمیت مشترکہ اقدامات، باہمی تعاون کے منصوبوں، تعلقات کو بہتر اور فعال کرنے کے لیے پاکستان کے دورے کی دعوت دی گئی، جس پر سنجیدگی سے کام بھی شروع ہوا، لیکن بوجوہ یہ دورہ نہ ہوسکا۔ اُس وقت بھی سرگئی لیوروف روس کے وزیرِ خارجہ تھے،جو پاکستان کے دورے پر آئے۔ بعدازاں معلوم ہوا ہے کہ روسی صدر کا دورہ ملتوی ہونے کی بڑی وجہ پاکستان کی جانب سے ایسی مطلوبہ تیاریوں کا فقدان تھا، جو عالمی طاقت کے سربراہ کے اوّلین دورۂ پاکستان کے لیے ضروری تھیں۔

سفارتی حلقوں کے مطابق، صدر پیوٹن کے دورے کے لیے محض فوٹو سیشن، مفاہمتی یاد داشتوں پر دست خط اور ملاقاتیں کافی نہیں تھیں، قصّہ مختصر پاکستان نے روس سے تعلقات کی بحالی کا یہ موقع بھی ضائع کردیا۔ تاہم، پاکستان کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرادری اپنے ادوار میں روس کے دَوروں پر جاتے رہے، لیکن اَمر واقعہ یہ ہے کہ سات دہائیاں پہلے ماسکو کی جانب سے پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان کو دورۂ روس کی جو دعوت دی گئی تھی اور جسے نظرانداز کرکے واشنگٹن کا رُخ کیا گیا تھا، اُس کا ازالہ شاید اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ 

اِس حوالے سے مختلف اور متضاد آرا اُس وقت بھی موجود تھیں اور شاید آج بھی ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی اوّلین ترجیح روس نہیں، امریکا ہی ہونا چاہیے تھا اور وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان کا ماسکو کی بجائے واشنگٹن جانے کا فیصلہ درست تھا۔ وہ فیصلہ درست تھا یا غلط، آج کے حالات کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس طویل عرصے کے دَوران عالمی سطح پر اِتنی تبدیلیاں واقع ہوچُکی ہیں کہ اب شاید اُس دَور کے حالات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے، کیوں کہ اِس عرصے میں سویت یونین بکھر چُکی اور پاکستان بھی دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا۔

بہرحال روسی وزیرِ خارجہ، سرگئی لیوروف کے حالیہ دورۂ پاکستان کو خوش آیند ہی قرار دینا چاہیے اور اس سے اچھی توقّعات وابستہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ سرگئی لیوروف براستہ دہلی، اسلام آباد پہنچے تھے۔ گو کہ دہلی میں اُن کی بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے سِوا اور کوئی خاص مصروفیت یا ملاقات سامنے نہیں آئی، لیکن اسلام آباد میں اُنہوں نے وزیرِ اعظم، عمران خان اور پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ 

اِس تناظر میں اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں روسی وزیرِ خارجہ کا یہ کہنا کہ’’ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اِس سے مطمئن ہیں‘‘ اِس بات کی غمّازی ہے کہ دہلی میں اُن کی ملاقاتوں میں پاک، بھارت تعلقات پر بھی بات ہوئی ہوگی، کیوں کہ حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور دہلی کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے کئی ممالک کے نام سامنے آرہے ہیں۔ 

نیز، افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں، کیا روس ان میں بھارت کو بھی کوئی کردار دینا چاہتا ہے؟ یہ بھی قرین از قیاس ہے کہ دہلی میں روسی وزیرِ خارجہ سے اس حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ پاکستان میں روسی وزیرِ خارجہ کا دو روزہ دَورہ ان کی مصروفیات کے حوالے سے ایک روز کا تھا، کیوں کہ وہ 6اپریل کی سہ پہر اسلام آباد پہنچے تھے، لیکن اُنہوں نے اپنی مصروفیات کا آغاز 7اپریل کو کیا۔ دو طرفہ مذاکرات میں روس نے پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے خصوصی فوجی آلات کی فراہمی اور مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کیا۔ دونوں ممالک نے دفاع اور سیکیوریٹی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا اور روسی ’’ویکسین5‘‘ کی تیاری کے لیے پاکستان میں پلانٹ لگانے پر بھی غور کیا گیا۔اس کے علاوہ بھی مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون پر بات چیت ہوئی۔

روسی وزیرِ خارجہ کے دورۂ پاکستان کی یہ توجیہہ بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ جہاں عالمی طاقتیں پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتیں، وہاں خود پاکستان بھی بین الاقوامی سطح پر تنہا ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہتا۔ ماضی کے واقعات اور روس سے تعلقات کے پس منظر میں یقیناً پاکستان نے یہ سبق ضرور حاصل کیا ہوگا کہ کسی ایک کیمپ کی طرف جانے کی بجائے اپنی خارجہ پالیسی کو آزادانہ اور خودمختار انداز سے چلانا چاہیے۔ 

شاید پاکستان ،واشنگٹن کو یہ باور کروانے کی بھی کوشش کر رہا ہے کہ اگر امریکا اسے غیر اہم سمجھتا ہے، تو دنیا میں دوسری طاقتیں بھی موجود ہیں۔ واضح رہے، امریکی صدر جوبائیڈن نے ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا تھا۔ جان کیری بھی بھارت گئے، لیکن پاکستان نہیں آئے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جوبائیڈن نے صدر بننے کے بعد دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان کو فون کیے، لیکن یہاں بھی پاکستان کو نظرانداز کیا گیا۔

سرگئی لاروف …اہم عالمی فورمز پر اپنے مُلک کی نمایندگی کر چُکے ہیں

یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ اہم ممالک کا اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں تسلسل کا ایک حوالہ ہے کہ 9 سال بعد ایک مرتبہ پھر جب اسلام آباد اور ماسکو میں قربتوں کے تذکرے ہو رہے ہیں، تو روس کی جانب سے اِس عمل میں سرگرم وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف ہی ہیں۔ یاد رہے، جب ایک دہائی قبل ایسی ہی کوششوں کا آغاز ہوا تھا، تو اُس وقت بھی سرگئی لاروف ہی روس کے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے اسلام آباد آئے تھے۔ لاروف کا سفارتی پس منظر غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ 70 سال سے زاید عُمر کا بڑا حصّہ سفارت کاری اور اہم عالمی اداروں کی سربراہی کرتے گزرا ہے۔ 

سرگئی لاروف 1950 ء میں ماسکو میں پیدا ہوئے۔ والد آرمینیا اور والدہ جارجیا سے تعلق رکھتی تھیں اور روسی وزارتِ خارجہ کے شعبۂ تجارت سے وابستہ تھیں۔ لاروف کو ابتدائی تعلیم کے دَوران خارجہ امور سے قطعاً کوئی دل چسپی نہیں تھی، بلکہ اُن کا رجحان طبیعیات کی طرف تھا، اِس لیے اُنہوں نے قومی تحقیق نیو کلیئر یونی ورسٹی میں داخلے کا ارادہ کیا، لیکن بعد میں یہ ارادہ تَرک کر کے ماسکو انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلشنز میں داخلہ لے لیا اور 1972 ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اِس دوران انگریزی، فرانسیسی اور سری لنکن زبانیں بھی سیکھیں۔ 

سرگئی لاروف فنونِ لطیفہ میں بھی دِل چسپی رکھتے تھے اور اپنے ساتھی طلبہ کے ساتھ یونی ورسٹی میں ڈراما پیش کرنے کے دَوران ہی اُنہوں نے شادی کرلی۔ اُنھیں فُٹ بال بے حد پسند ہے اور یہ کھیل کھیلتے بھی ہیں۔ سرکاری یونی ورسٹی سے آئی آر میں گریجویشن کرنے والے طلبہ کو وزارتِ خارجہ میں ایک مقرّرہ وقت تک کام کرنا پڑتا تھا، چناں چہ لاروف نے سری لنکا میں واقع روسی سفارت خانے میں بطور ایڈوائزر خدمات سَر انجام دیں، جہاں اُن کی خدمات کو سراہا گیا۔ 1976 ء میں ماسکو واپس آکر مختلف شعبوں میں سفارتی خدمات انجام دیں اور پھر اعلیٰ خدمات کے تسلسل میں دسمبر 1995ء میں اُنہیں اقوامِ متحدہ میں روس کا مستقل نمائندہ اور جون 2003ء میں سلامتی کاؤنسل کا صدر بنا دیا گیا۔ 9 مارچ 2004 ء کو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اُنہیں وزیرِ خارجہ کے اہم عُہدے پر فائز کیا۔ 2017 ء میں جب شمالی کوریا کا بحران پیدا ہوا، تو سرگئی لاروف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کے درمیان لفظی جنگ کو’’ دو بچّوں کے مابین کنڈر گارٹن لڑائی ‘‘سے تشبیہ دی اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

تازہ ترین