• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسے غفلت یا ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے وسائل سے مالا مال ملک میں ہر تیسرا شخص غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کررہا ہے اور حکومت کو مفلسی کے ستائے کم آمدنی والے لوگوں، محنت و مشقت کرکے روزی کمانے والوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے لئے مفت کھانا فراہم کرنے کی اسکیم شروع کرنا پڑرہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اتوار کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے بعد لاہور، فیصل آباد اور پشاور میں فری فوڈ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے معاشی حالات کو مشکل قرار دیا اور کہا کہ پاکستان پر قرضے چڑھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عوام کی ترقی پر خرچ کرنے کے لئے کم رقم بچتی ہے۔ تاہم فیصلہ کیا گیا ہے کہ غریب اور مستحق لوگوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر مفت کھانا پہنچایا جائے۔ ’’کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ تخفیف غربت کے اسی پروگرام کے سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کے تحت ’’میل آن ویل‘‘ یعنی ٹرکوں کے ذریعے مستحقین کو مفت کھانا فراہم کیا جائے گا۔ اس سے ملک میں برکت آئے گی اور پاکستان بھی ریاست مدینہ کی طرز پر چند برسوں میں دنیا کے نقشے پر ہوگا۔ وزیراعظم کے وژن کے تحت پہلے ہی مزدوری کی غرض سے شہروں میں آنے والوں کے لئے پناہ گاہیں قائم کی جا چکی ہیں جہاں انہیں مفت کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک اور اہم منصوبہ ہر شہری کے علاج معالجے کے لئے ہیلتھ انشورنس اسکیم ہے جو حکومت نے شروع کی ہے۔ میل آن ویل پراجیکٹ کے ذریعے ہر ٹرک سے مخصوص سروس پوائنٹس پر ڈیڑھ سے دو ہزار افراد میں دن میں دومرتبہ کھانا تقسیم کیا جائے گا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں اب تک اس اسکیم کے تحت 37 ہزار 8سو 27افراد کو کھانا دیا جا چکا ہے، یہ سلسلہ دوسرے شہروں تک پھیلایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں کے عوام سب سے زیادہ خیرات دیتے ہیں اور مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ اس پروگرام میں اپنا کردار ادا کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور میں ربن کاٹ کر پراجیکٹ کا افتتاح کیا اور بتایا کہ فیصل آباد میں روزانہ 20ہزار افطار باکس لوگوں میں تقسیم کئے جائیں گے۔ پاکستان کے معاشی حالات بقول وزیراعظم ٹھیک نہیں ہیں جس کی بڑی وجہ غیرملکی قرضے ہیں۔ ان میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کے مشروط قرضے ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر آئی ایم ایف قرضوں کے عوض عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کا ذمہ دارہے۔ جس سے مہنگائی اور بےروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔ معاشی مشکلات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان جو گندم چینی اور کپاس برآمد کرکے خطیر زرمبادلہ کماتا تھا۔ اب ان کی درآمد پر مجبور ہے۔ قرضے لینا بری بات نہیں ہے بشرطیکہ انہیں ترقیاتی مقاصد کے لئے استعمال کرکے اثاثے بڑھائے جائیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم، زمین کے اندر پوشیدہ خزانوں کی تلاش، ہنرمندانہ تعلیم کے فروغ، مالی کرپشن کے خاتمے اور نتیجہ خیز منصوبہ بندی پر توجہ دی جائے۔ غریبوں کو کھانے کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے مگر اس کی اتنی تشہیر نہ کی جائے کہ نادار لوگوں کی خودداری کو ٹھیس پہنچے۔ حکم تو یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے اس طرح دو کہ بائیں کو خبر نہ ہو۔ پاکستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں مخیر حضرات اور فلاحی ادارے پہلے سے یہ فرض خاموشی سے ادا کررہے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ لنگر خانے اور ٹرک انہی کی مدد سے منظم منصوبہ بندی کے تحت چلائے جائیں اور سرکاری خزانے پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔ اس طرح ریاست بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہوگی اور مخیر حضرات سے وزیراعظم کی اپیل زیادہ مؤثر ہوگی۔

تازہ ترین