• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کو قائم ہوئے 33ماہ ہو گئے ہیں لیکن اس عرصہ میں نہ تو حکومت سکون کا سانس لے سکی نہ ہی اپوزیشن جماعتوں میں استقامت نظر آئی۔ حکومت کی کارکردگی پر بعد میں بات کریں گے پہلے کچھ ذکر اپوزیشن کا ہوجائے۔ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں نے کافی احتسابی جھٹکے کھانے کے بعد یکجا ہوکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور اس حکومت مخالف اکٹھ کو کامیاب بنانے کے لئے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ساتھ ملا کر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نامی اتحاد کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ باقاعدہ اس تحریک کے خدوخال طے کرکے ایک طے پانے والے معاہدے پر دستخط بھی کردیے۔ متفقہ عہدیداروں کا چنائو بھی کرلیا گیا اور پھر حکومت مخالف جلسوں کا آغاز کیاگیا۔ اس تحریک کے روح رواں اور صدر مولانا فضل الرحمٰن اس سے پہلے حکومت مخالف لانگ مارچ کرچکے تھے۔ اس مارچ میں بھی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے ساتھ دینے کا عندیہ دیاتھا۔ ان دنوں میں نے ایک کالم میں مولانا صاحب کو مشورہ دیاتھا کہ وہ ان دونوں جماعتوں کا آسرا لینے کے بجائے وہ کچھ کریں جو وہ اکیلے کرسکتے ہیں۔ یہ دونوں وقت آنے پر منظر سے غائب ہوجائیں گی جس سے آپ کا لانگ مارچ متاثر ہو جائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دونوں جماعتوں کے بعض قائدین مولانا کے اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینے کے دوران مہمان اداکار بن کراسٹیج پر آکر تقاریر کرتے اور واپس گھر چلے جاتے۔ پھر جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ اب کی بار پی ڈی ایم کی صورت میں معرض وجود میں آنیوالے کثیر الجماعتی اپوزیشن اتحاد سے مولانا نے زیادہ امیدیں وابستہ کیں۔ اور ایک بار پھر ان دوبڑی جماعتوں کا اعتبار کیا۔ لیکن مولانا جیسے زیرک سیاستدان یہ نہ سمجھ سکے کہ جس طرح سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اسی طرح سیاسی وعدے اور قسمیں بھی غیر حقیقی ہوتے ہیں۔ مولانا خود بھی سیاستدان ہونے اور ’’ وسیع تجربہ‘‘ رکھنے کے باوجود سمجھنے سے قاصر رہے کہ ہمارے ہاں سیاست اور جمہوریت کا مطلب ومعنی صرف اور صرف مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ اس میں جس طرح عوام کی بھلائی جیسے الفاظ کی جگہ نہیں اسی طرح وعدوں کو نبھانے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تقاریر، خطابات اور وعدے وہ سیڑھیاں ہیں جن پر چڑھ کر یہ لوگ کامیابی یعنی مفادات کی شاخ پکڑتے اور اسی کو اسٹرٹیجی کہتے یا سمجھتے ہیں۔

ہمارے ہاں جمہوریت کو نام نہاد بنانے میں اہم کردار سیاستدانوں کا ہے۔جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مفاد پرست سیاستدانوں نے ہی نقصان پہنچایا۔ اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ عوام کو موجودہ نظام سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔بلکہ اس سے عام آدمی کاستیاناس ہوگیا ہے۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار اداروں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو گردانا جاتا ہے۔ اور یہ گردان اس وقت وہ لوگ کرتے ہیں جب وہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔ آج تک عام پاکستانی یہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ جمہوریت کس چڑیا کانام ہے۔ عام آدمی صرف یہ سمجھتا ہے کہ انتخابات کے دنوں میں میرے حلقے کا امیدوار آکر دلفریب وعدے کرکے ووٹ لیتا ہے اور پھر خود’’ترقی‘‘ کی منازل طے کرتا رہتا ہے پھر کونسے عوام اور کونسے وعدے۔ اب آخر میں موجودہ صورتحال پر نظر کریں تو علم الاعداد کے مطابق پی ڈی ایم موجودہ پوزیشن میں رہتے ہوئے عید الفطر کے بعد پھر متحرک ہوکر حکومتی مشکلات میں اضافہ کرے گی اور اس بار کشتیاں جلاکر میدان میں اترےگی۔ تمام افواہوں کے باوجود مریم نواز بیرون ملک نہیں جائینگی۔کیونکہ اب بہت دیر ہوگئی ہے۔ موجودہ حالات میں ان کا بیرون ملک جانا ان کے لئے اور مسلم لیگ (ن) کے لئے سخت نقصان کا باعث ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو اپنے حالیہ فیصلوں کے باعث پچھتاوا ہوگا۔

اس33ماہ کے عرصہ میں بعض حکومتی اقدامات بقول شخصے چھری کو مٹی کے ڈھیلے پرتیز کرنے کے مترادف ہیں۔ آنیوالے ایک دوماہ میں ملک میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اگر پی ڈی ایم نے ذاتی مفادات کے بجائے عوامی مسائل اور مہنگائی کو اپنی تحریک کا محور بنالیا تو حکومت کے لئے بہت مشکل ہوسکتی ہے۔ اس وقت حکومت کو کئی مشکلات اور بے یقینی سیاسی صورتحال کا سامنا ہے۔ جہانگیر ترین کا معاملہ حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان نے جہانگیر ترین اور چند دیگر لوگوں کے معاملہ پر کسی قسم کی لچک نہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور تخت ہو یا تختہ ان معاملات پر یوٹرن نہ لینے کا پکا ارادہ کرلیا ہے۔ دوسری طرف علم الاعداد کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان کوئی صلح اور سمجھوتہ نظر نہیں آرہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس سلسلے میں بعض لوگوں کی طرف سے کی گئی کوششیں ناکام ہوکر ترک کی جاچکی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں صورتحال واضح ہوتی جائے گی۔ یہ معاملہ صرف جہانگیر ترین تک کا نہیں رہے گا بلکہ چند دیگر لوگوں کوبھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس تمام صورتحال کے ملکی سیاسی اور حکومتی نظام کارپر حیران کن اثرات پڑسکتے ہیں۔حکومت کیلئے وفاق اور پنجاب میں بجٹ پاس کرانے میں مشکلات نظر آرہی ہیں۔ اگر بجٹ بر وقت پاس نہیں ہوتے تو حکومت برقرار رہنے میں بہت مشکلات پیش آئینگی۔ جہانگیرترین کو مستقبل میں کوئی اہم جگہ بھی مل سکتی ہے۔ لیکن یہ ان کی ’’ ثابت قدمی‘‘ پر منحصر ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وزرا اور بیوروکریسی میں تبادلوں کے میوزیکل چیئراور مخالفین کو زچ کرنے کے بجائے عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دے۔ عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے آسانیاں پیدا کرے۔ ویسے موجودہ سال تبدیلیوں کا سال ہے یہ ذہن میں رکھنا چاہئے۔

تازہ ترین