وزیر اعظم نے کہا اور سبحان اللہ کیاخوب کہا کہ
”اربوں روپے ہڑپ کرنے والے ادارے ٹھیک کرینگے یا انہیں بیچ دینگے“۔
برصغیر کی عظیم قدیم دھرتی دانش نے بیٹوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ پوت ،کپوت، سپوت۔ پوت وہ بیٹا ہوتا ہے جو باپ کے نام، مقام اور ورثہ کو قائم رکھے، کپوت وہ ہوتا ہے جو باپ کا کمایا ہوا نیک نام برباد کردے، باپ کے مقام کو کم تر کردے اور اس کے ورثوں کو بیچ کھائے یا کم کردے جبکہ سپوت اس بیٹے کو کہتے ہیں جو باپ کے نام، مقام،، لیگسی اور ورثوں میں قابل ذکر اور خاطر خواہ اضافہ کرے۔ بدنظمی اور بدنیتی کے باعث برباد شدہ قومی ادارے بیچنا کون سا کارنامہ ہے؟ ہاں انہیں پٹڑی پر ڈالنا واقعی کسی سپوت صفت کا کام ہے۔ یہ ادارے ہمارے بچوں کی ا مانت ہیں جنہیں بیچنا خیانت یا کم سے کم عدم اہلیت کا ثبوت ہوگا،ایسا ہی ہے تو کل کلاں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایٹمی اثاثوں سے بھی کچھ حاصل وصول نہیں، امریکہ کے حوالے کرکے ڈالر کھرے کرلو۔ شاعری کی زبان میں بیان کچھ یوں ہوگا کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو ”بوجھ“ اتارا کرتے ہیں، کشتی کی نیلامی کا اشتہار نہیں دیا کرتے سو اداروں کی فروخت بدترین شکست اور نااہلی کا اعتراف ہوگا جس پر ہم جیسے کم ظرف بھلے خاموش رہیں آئندہ نسلیں معاف نہیں کریں گی۔
ادھر شہباز شریف نے بھی اک عرصہ بعد بہت ہی ڈھنگ کی اور ٹھنڈی بات کی ہے کہ”عالمی مالیاتی ادارے تو توانائی بحران کے حل اور آبادی پر کنٹرول کے لئے تعاون کریں “تو میرے قارئین اس بات کے گواہ ہیں کہ میں گزشتہ 20برس سے ہر سال”عبادتاً“ آبادی کے عفریت پر ماتم کرتے ہوئے حکمرانوں کی عقلوں پر بھی ماتم کرتا ہوں کہ بدبختو! پاکستان میں”سب اچھا“ بھی ہوجائے تو اس کی بے لگام بڑھتی ہوئی ا ٓبادی ہی اس کی بربادی کے لئے کافی ہوگی، اسے کنٹرول کرو۔ مذہبی حوالہ سے کیا یہ”دلیل“ کافی نہیں کہ مسلمانوں کو ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم ہے اور یہ کون بھلا سکتا ہے کہ … ”مومن اپنے عصر کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے“ اور یہ تعداد نہیں بلکہ استعداد کا زمانہ ہے ورنہ ڈیڑھ ارب مسلمان راندہٴ درگاہ نہ ہوتا اور چند ملین یہودی بالواسطہ و بلاواسطہ اس دنیا کو کنٹرول نہ کررہے ہوتے۔ موٹر وے، میٹرو، بلٹ ٹرینیں اور ائیر پورٹ بہت ضروری لیکن بہت قبل از وقت قسم کے شوشے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ گھر میں دو وقت کی روٹی نہ ہو، بچوں کے نام فیس کی عدم ادائیگی پر سکول سے خارج ہوچکے ہوں، ماں بغیر علاج کے گھر میں ایڑیاں رگڑ رہی ہو، پڑوسی روز چھترماررہے ہوں اور گھر کا سربراہ ”شینڈ لیئر“ خرید لائے لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ”اپنی آبادی“ کنٹرول کرنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کا تعاون کیوں چاہئے؟ پڑوس میں چین کی مثال ہے، کرو قانون سازی اور یقینی بناؤ اس پر عملدرآمد لیکن ہم تو وہ ہارے ہوئے لوگ ہیں جو”گند“ڈالنے میں تو خود کفیل ہیں لیکن”صفائی“ کا ٹھیکہ ترک کمپنیوں کو دینے بھاگتے ہیں جو مسئلہ کا حل نہیں جو مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنانے کے مترادف ہے۔ لاکھ سڑکیں، انڈر پاسسز، اوور ہیڈز اور میٹرو بنا لو…جب تک”مینرز“ پر توجہ نہیں دو گے، سڑکوں پر سرکس اور افراتفری یونہی قائم رہے گی۔ لاہور کو ماڈل ڈیکلیئر کردیں، چھ مہینے کے اندر اندر ٹریفک منظم نہ ہو تو جو چور کی سزا وہ میری… میٹر و نہیں مینرز کیونکہ لیڈر ٹھیکے دار نہیں”ٹیچر“ ہوتا ہے اور ٹیچر کی نظر سطحی سستی وقتی مقبولیت نہیں، بچوں کے مستقبل پر ہوتی ہے لیکن میں کیا بھینسوں کے باڑے میں بین بجانے بیٹھ گیا ہوں۔
”فار اے چینج“ ہمارے علمائے کرام نے بھی شاہ رخ جتوئی کیس کے حوالہ سے خوب کہا کہ…”سزا کے بعد مجرموں کے فاتحانہ انداز نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا“۔ یہی وہ مکروہ ترین اور متکبر ترین مائنڈ سیٹ ہے جسے تبدیل کرنا ہی ہر قسم کی لیڈر شپ کے لئے اصل چیلنج ہے۔ لیڈر شپ مذہبی ہو، فکری یا سیاسی، یہ سب کی اجتماعی ناکامی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مجھے اس قتل پر دوہرا دکھ ہوا۔ ایک طرف میں نوجوان خوبصورت مقتول کا سوچتا تو دل بھر آتا، دوسری طرف نوجوان قاتل کو دیکھ کر اس کی متوقع سزا کا سوچتا توملول ہوجاتا لیکن سزا سننے کے بعد قاتل کا ردعمل دیکھ کر جو کچھ مجھ پر بیتی اسے بیان کرنے کے لئے میری لغت میں کوئی لفظ موجود نہیں۔ یہ کیسا اجڑا ،پجڑا قبرستانوں اور جنگلوں سے بھی بھیانک معاشرہ ہے جہاں لاشوں پر بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں، زندہ انسانوں پر مٹی کا تیل چھڑک کر انہیں آگ لگادی جاتی ہے، عورتوں کو برہنہ کرکے گلیوں میں گھمایا جاتا ہے، کم سن بچوں کے ساتھ بدفعلی کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے، کم عمر گھریلو ملازموں کے جسم داغ دئیے جاتے ہیں…رب العزت کی قسم اس ملک کو کسی لیڈر یا پرائم منسٹر کی نہیں کسی ایسے ٹیچر کی ضرورت ہے جو ہم سب کو حقائق کے آئینہ میں ہمارا بھیانک چہرہ دکھانے کی جرأت رکھتا ہو۔ مسلمان کے بارے فرمایا کہ یہ توایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو پورا بدن اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ یہ کیسا بدن ہے جو خود ہی خود کو نوچ نوچ کر کھارہا ہے اور یہ ”رویے“ کسی کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ عامر لیاقت کو چاہئے ایسے موضوعات پر مزید فوکس کریں۔ یہ مشورہ نہیں، صرف ”لاوڈ تھنکنگ“ ہے۔صدر مملکت آصف زرداری نے بھی خوب کہا کہ…”جمہوریت کے لئے بی بی نے جان دی، میں نے جیل کاٹی، نواز شریف نے قید اور جلا وطنی برداشت کی“۔میرا سوال بہت سادہ ہے کہ بی بی کے جان دینے، آپ کے جیل کاٹنے اور نواز شریف کی جلا وطنی نے اس ملک اور اس کے عوام کو کیا دیا؟ بد سے بد تر اور بدترین کے علاوہ اور کیا دیا؟ اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے تو اس ملک کے عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ آپ سب نے یہ سب کچھ”جمہور“ کے لئے نہیں اپنے اپنے اقتدار کے لئے کیا یعنی یہ سب”قربانیاں“ نہیں”پاور پلے“ تھا اور تخت سے لے کر تختہ دار تک یہ سب کچھ اس پیکیج کا حصہ ہوتا ہے۔ داراشکوہ، شجاع، مراد ”جمہوریت“ نہیں بادشاہت کے لئے مارے گئے تھے۔عوام کے حصہ میں بھوک، بے روزگاری، بدتمیزی، بدامنی کے علاوہ نہ کچھ تھا نہ ہے نہ ہوتا دکھائی دیتا ہے سوائے ان قرضوں کے جو بتدریج بڑھتے جارہے ہیں۔عزت مآب صدر مملکت! عوام کو نہ کسی کی جان چاہئے نہ جیل نہ جلاوطنی،، انہیں صرف اناج ،علم، علاج اور تھوڑی سی عزت کی ضرورت ہے جسے پینسٹھ سال میں کوئی پورا نہیں کرسکا!