• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی اشرافیہ ساڑھے 26کھرب اپنی مراعات پر خرچ کرتی ہے، عالمی ادارہ

کراچی (رفیق مانگٹ) عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے 26کھرب 60؍ ارب روپے (17.4؍ ارب ڈالر) اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتے ہیں۔ 

غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، یو این ڈی پی کی کنی وگناراجا کا کہنا ہے کہ پاکستانی رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی رپورٹ پر کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا چھ فی صد ہے جو تقریباً سترہ عشاریہ چار ارب ڈالر (2,659,590,000,000 روپے) بنتے ہیں۔ 

گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے تحت نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر) جاری کی گئی جس میں 22کروڑ نفوس کے ملک پاکستان میں عدم مساوات کے معاملات پر توجہ مرکوز کی گئی۔

اس رپورٹ میں پاکستان میں بظاہر آمدنی اور معاشی مواقع کے حوالے سے عدم مساوات کاجائزہ لیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طاقتور طبقہ اپنے منصفانہ حصہ سے زیادہ کے لئے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہیں۔

لوگ معاشرتی روایات پر مبنی دوسروں کے خلاف تعصب کے ذریعہ ساختی امتیازی سلوک کو برقرار رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں عدم مساوات کو دور کرنے میں پالیسیاں اکثر ناکام رہتی ہیں۔

اس رپورٹ کے نتائج پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے، یو این ڈی پی کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور علاقائی چیف، کنی وگیناراجا دو ہفتوں کے ʼورچوئل ٹور پر ہیں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور وزراء سمیت ان کی کابینہ کے دیگر اراکین جن میں امور خارجہ اور منصوبہ بندی کے وزرا شامل ہیں ان سے اس رپورٹ کی فائنڈنگ پر بات چیت کی۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستانی رہنماؤں نے اس رپورٹ کو درست لیا ہے اور کارروائی کاعہد کیا ہے۔انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ موجودہ ٹیکس اور سبسڈی پالیسیوں جیسی چیزوں کا جائزہ لینے، زمین اور سرمائے تک رسائی کو دیکھنے کا ان کاپختہ ارادہ ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق مراعات کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والاکارپوریٹ سیکٹر ہے، تخمینہ کے مطابق اس نے سات کھرب 18ارب روپے ( چار عشاریہ سات ارب ڈالر) کی مراعات حاصل کیں۔ 

دوسرے اور تیسرے پر مراعات حاصل کرنے والا ملک کا ایک فی صد امیر ترین طبقہ ہے جو ملک کی مجموعی آمدن کا نو فی صد مالک ہے اور جاگیر دار اور بڑے زمیندار جو ایک عشاریہ ایک فی صد آبادی ہے لیکن ملک کی 22فی صد قابل کاشت زمین کی مالک ہے۔ 

پاکستانی پارلیمنٹ میں دونوں طبقوں کی مضبوط نمائندگی ہے، بیشتر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یاکاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جو مراعات کی فراہمی کے ذمہ دار تھے وہی وصول کررہے ہیں۔ ایک ہاتھ سے وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کیلئے مراعات دے رہے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سے وصول کررہے ہیں۔ 

ملک کا طاقتور ادراہ زمین سرمایہ، انفرااسٹرکچر او رٹیکس کی چھوٹ کی مد میں دو کھرب ساٹھ ارب روپے (ایک عشاریہ سات ارب ڈالر) کی مراعات لے رہا ہے۔ پاکستان میں عدم مساوات انتہائی گہری ہیں۔ 

ملک کے امیرترین ایک فی صد طبقے کے پاس 2018-19 میں ملک کی نو فیصد آمدنی تھی۔ جب کہ غریب ترین 1 فیصد کے پاس صرف 0.15 فیصد ہے۔مجموعی طور پر، 20 فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا 49عشاریہ چھ فی صد ہے جب کہ بیس فی صد غریب ترین کے پاس قومی آمدنی کا صرف سات فی صد ہے۔ 

پاکستانی پالیسی سازوں کے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ ملک متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے،یو این ڈی پی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ متوسط آمدنی والے افراد 2009 میں آبادی کا 42 فیصد سے کم ہوکر 2019 میں 36 فیصد رہ گئے ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کو عوامی اخراجات سے یکساں فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں جنوبی ایشیاء میں پاکستان آخر سے دوسرے نمبر پر ہے پہلے پر افغانستان ہے ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی صنف گیپ انڈیکس میں پاکستان کا 156 میں سے 153 نمبر ہے۔ اس میں پرائمری اسکول کی عمر کی 32 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں۔

تازہ ترین