• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاشبہ سُستی عظیم نعمت ہے۔سُست آدمی دن میں دس سے پندرہ گھنٹے تک سو سکتا ہے ،اس کا جب جی چاہتا ہے وہ بستر سے اٹھتا ہے ،کسی چوکس آدمی کی طرح صبح چھ بجے پلنگ سے ہائی جمپ مار کر اٹھنے کو پرلے درجے کی حماقت سمجھتا ہے ،ورزش یا صبح کی سیر جیسی لغویات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،پیدل چلنے کو مکروہ سمجھتا ہے ،جس عمارت میں لفٹ نہ ہو اس کے پاس سے بھی نہیں گزرتا،گاڑی منزل مقصود کے بالکل سامنے پارک کرتا ہے، دفتر میں سونے کو عین عبادت سمجھتا ہے ،اسے کسی کام کی جلدی نہیں ہوتی،وہ ہمیشہ ریلیکس رہتا ہے اورپھر اسے مزید نیند آتی ہے ۔اس شاہانہ لائف سٹائل میں بس ایک ہی مسئلہ ہے کہ سُست آدمی کا وزن بہت بڑھ جاتا ہے۔یہ وہ نازک مقام ہے جہاں سے معرفت کی منزل شروع ہو تی ہے ،سخت سُست قسم کے ”عارف“ معرفت کی منزلیں طے نہیں کر پاتے چنانچہ ان کا وزن بڑھتارہتا ہے جبکہ نسبتاً کم سُست ”سالک“ سلوک کی ”ٹریڈ مل“ پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں مگرچند دن بعد ہی وہ اس ٹرید مل سے یوں اتر جاتے ہیں جیسے کوئی نا قدردان محبوب ،عاشق کے دل سے اتر جاتا ہے ۔
سستی اور موٹاپے کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسی لئے مجھے موٹے لوگ بھی بہت پسند ہیں ،ان کے چہروں پر بچوں جیسی معصومیت اور بھولپن ہوتا ہے ،زندگی میں روٹی ہی ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہوتی ہے ،ان کے ٹائم ٹیبل میں روٹی کا وہی مقام ہے جو ہمار ے ہاں شاعروں میں اقبال کا ہے ،تاہم ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنی خوش خوراکی کا ڈھول پیٹنے کی بجائے یہ ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ دن کے چوبیس میں سے پچیس گھنٹے ڈائٹنگ پر رہتے ہیں ،ان سے خوراک پوچھی جائے تو مسمسی سی صورت بنا کر کہیں گے کہ صبح ناشتے میں بغیر زردی کا انڈا اور ایک کپ پھیکی چائے کے بعد حرام ہے جو پیٹ میں کچھ گیا ہو ،لیکن اسی روز اگر آپ انہیں کسی برگر پوائنٹ پر پکڑ لیں تو موصوف ایک کنگ سائز برگر کھاتے ہوئے ملیں گے مگر شرمندہ ہونے کی بجائے اطمینان سے کہیں گے ”یار ،بچوں نے یہاں آنے پر مجبور کر دیا ورنہ میں تو گھر میں ابلی ہوئی سبزی کھا رہا تھا۔“ اس سادگی کہ کون نہ مرجائے !
سُست اور موٹے لوگ اگر وزن گھٹانے کی نیت سے ”جم“ جوائن کر لیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو وزن انہوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں کمایا تھا وہ دو ہفتوں میں کم ہو جائے اور ان کی چھاتی کسی باڈی بلڈر کی طرح ”سکس پیک“ بن جائے (براہ کرم سکس کو سیکس نہ پڑھا جائے )۔جم سے واپسی پر روزانہ تین کلچے ،ڈیڑھ فٹ لمبا لسّی کا گلاس اورایک عدد کھد کا ناشتہ کرنے کے بعدان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی کمر راتوں رات جم کے جادو سے چھ انچ کم ہو جائے۔یہ لوگ رات کو دوستوں کے ساتھ کڑاہی گوشت کھانے کے بعد سینہ تان کر ڈا ئٹ سیون اپ پیتے ہیں اور کہتے ہیں ”یار آج کل جم جا رہا ہوں، اس لئے ڈائٹ ہی ٹھیک ہے ۔“یہ جم جانے والا فقرہ نہایت متاثر کن محسوس ہوتا ہے،خاص طور پر کسی جیّد قسم کے سُست کے منہ سے۔جونہی ایسا شخص یہ جملہ بولتا ہے ،اس کے دوست اسے حسرت بھری نگاہو ں سے دیکھتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں پتہ ہوتا کہ ان کا دوست جم ضرور جاتا ہے مگر ”کراس ٹرینر“ (ایک جناتی سائیکل نما مشین )کو چند منٹ چلانے کے بعد یوں ہانپنے لگتا ہے جیسے ہماری پرانی فلموں کے بزرگ ہیرو آدھ منٹ کے فائٹ سین کے بعد ہانپ جاتے تھے ۔
موٹاپے سے بیزار لوگوں کا حال تو ان سے بھی پتلا ہے ،جم میں یہ لوگ یوسف بے کارواں کی طرح پھرتے رہتے ہیں ،کبھی کسی مشین پر چڑھ کر ایک آدھ منٹ ہاتھ پیر مارتے ہیں ،کبھی ٹریڈ مل کو 1.5پر سیٹ کر کے ٹہلتے ہیں اورکبھی ہاتھ بازو اوپر نیچے کرکے سمجھتے ہیں کہ ان کی باڈی بھی اس نوجوان جیسی ہو جائے گی جس کا پوسٹر سامنے دیوار پر چسپاں نظر آتا ہے ۔اس سارے عمل کے دوران انہوں نے کئی کئی منٹ کا وقفہ بھی لینا ہوتا ہے ،یعنی پورے جم میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ رینگنے کے بعد وہ گھر جا کر بستر پر یوں گرتے ہیں گویا ڈیڑھ ہزار کیلوریز برن کر آئے ہوں (اردو میں اسے حرارے جلانا کہیں گے،ویسے نہ ہی کہیں تو بہتر ہے )اور پھر دوپہر تک ایک جگ فالسے کا شربت ، جس میں لگ بھگ بیس چمچ چینی کے ہوتے ہیں ،یہ سوچ کرچڑھا جاتے ہیں کہ گرمی میں مفرّاح ہوتا ہے !
عورتیں بھی ان معاملات میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں تاہم عورتوں کے لئے دو مقامات آہ و فغاں ایسے ہیں جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ ایک وہ مرحلہ جب گھر میں کوئی دعوت ہو اور اس خاتون خانہ نے کھانا پکانا ہو جو صبح سے براؤ ن بریڈ پر گزارہ کر رہی ہو ۔دوسرا وہ مرحلہ جب انہیں خود کسی کھانے کی دعوت میں شرکت کرنی ہو،خدا کی نعمتیں میز پر سجی ہوں تو بڑے سے بڑا ڈائٹ گزار شخص بھی بہک جاتا ہے ،شعیب بن عزیز نے غالباً ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا کہ ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کھانوں میں !“
یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگر اصل بات یہ ہے کہ میں نے بھی جم جوائن کر لیا ہے ۔ اصولاً مجھے کالم کے شروع میں ہی یہ راز افشا کر دینا چاہئے تھا اور اس انداز میں کرنا چاہئے تھا کہ میرے قارئین متاثر ہو جاتے ،جیسے کہ میں ٹریڈ مل پر کتنا دوڑتا ہوں ،گھڑی پر وقت کیسے دیکھتے ہوں ،تولیے سے پسینہ پونچھنے کے دوران بھی جاگنگ جاری رکھتا ہوں ، کراس ٹرینر کو بچوں کی سائیکل سمجھتا ہوں ،پچاس ڈنڈ بیٹھکیں نکالتا ہوں ،آئی پوڈ پر گانے سنتے ہوئے ورزش کو انجوائے کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ ۔نہ جانے کسی کالم نگار کا جم جانا لوگوں کے لئے حیرت کا باعث کیوں ہوتا ہے ،اگر کوئی جاننے والا جم میں مل جائے تو عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے ”ارے ،آپ یہاں ؟“یہ ویسی ہی حیرت ہے جیسی ایک مرید کو اپنے پیر کے بارے میں ہوئی جن کے گھر کے باہر رش لگا ہوا تھا،اس مرید نے وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا کہ پیر ٍصاحب کے گھر کے باہر رش کیوں ہے ؟جواب ملا پیر صاحب کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے ۔ اس پر مرید حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا ”کمال ہے ،پیر صاحب کے ہاں بھی…!“
کیا آ پ نے کبھی سوچا ہے کہ جم جانے کے باوجود زیادہ تر لوگوں کا وزن کم کیوں نہیں ہوتا ،بالوں میں دہی اور انڈے والے ٹوٹکے کے استعمال کرنے والوں کے بال شاہ رخ خان جیسے کیوں نہیں ہو جاتے ،کیوں ہو میو پیتھک دوا اثرنہیں کرتی ،کیوں لوگ محنت کے باوجود کامیاب نہیں ہوپاتے ؟اس لئے کہ ہم جن خوش گوار نتائج کی خواہش رکھتے ہیں،ان نتائج کو پانے کے لئے مطلوبہ محنت نہیں کرتے ۔ہم وزن کم کرنا چاہتے ہیں مگر کسی ورزشی مشین پر دوڑے بغیر،ہم اپنی بیماریوں کا علاج چاہتے ہیں مگر کوئی پرہیز کئے بغیر،ہمیں دنیا جہاں کے ٹوٹکے تو پتہ ہیں مگر ان ٹوٹکوں کو جس جانفشانی اور مستقل مزاجی سے استعمال کرنا پڑتا ہے وہ ہماری مزاج کی سستی کے باعث ممکن نہیں ۔یہی حال کامیا بی کا بھی ہے ۔ہم ایک کامیاب زندگی کی خواہش تو کرتے ہیں مگر اس کے لئے جو انتھک محنت اور صبر درکار ہے وہ کرنے کے روادار نہیں۔زندگی کے بارے میں ہمارا رویہ جم جوائن کرنے جیسا ہے ،جیسے فقط جم جوائن کرنے سے وزن کم نہیں ہوتا ،بے تکی زندگی گزارنے سے بھی کامیابی نہیں ملتی ،کامیابی کے لئے ٹریڈ مل پر نان سٹاپ دوڑنا پڑتا ہے جبکہ ہم دو منٹ بعد ہی ہانپ کر اتر جاتے ہیں!
تازہ ترین