• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
گزشتہ چند روز کے دوران پاکستان میں مظاہروں، دھرنوں اور مارکٹائی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں۔ ابتدامیں پاکستان کے میڈیا نے اس صورتحال کا مکمل بلیک آئوٹ کیا مگر کب تک اس دوران برطانیہ اور دوسرے مغربی میڈیا نے سب کچھ رپورٹ بھی کیا اور اس پر تبصرے بھی کئے۔ مگر اب پاکستانی میڈیا نے کھل کر رپورٹنگ شروع کردی ہے اور حکومت نے بھی دھرنوں اور ڈنڈوں والوں کے خلاف اقدامات کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ڈنڈا برداروں کو پولیس والوں کی پٹائی کرتے دکھایا گیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس دوران بعض پولیس اہلکار جاں بحق اور سیکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ ڈنڈوں والوں کو گاڑیوں اور پبلک پراپرٹی کو آگ لگاتے ہوئے بھی دکھایا گیا، بعض جگہوں پر ان لوگوں کی پٹائی بھی دیکھنے میں آئی جو دھرنوں والوں کو چیلنج کر رہے تھے مگر انہوں نے کسی کی بھی نہ سنی، ایمبولینس کو راستہ دیا نہ کورونا مریضوں کے لئے آکسیجن لے جانے والی گاڑیوں کو آگے جانے دیا جو مرتا ہے مرے، وقت کے طاقتوروں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ مجھے اس بات کی حیرت ہے کہ دھرنے والے نوجوانوں نے اس خاتون کی کار کو کوئی نقصان پہنچایا نہ اس وقت ان کے ساتھ کوئی بدزبانی کی جب تک خاتون نے ان کے لیڈروں کو برا بھلا نہ کہا، خاتون کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ احتجاج کرنے والے سڑکوں کو بند رکھنا چاہتے تھے البتہ کئی جگہوں پر گاڑیوں کو توڑا گیا اور آگ لگائی گئی مگر خاتون کی گاڑی کو بظاہر کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ شاید اس خاتون کی آواز عوام کی طرف سے اٹھنے والی آوازوں کے لئے بارش کا پہلا قطرہ تھا اور اب لوگوں نے آہستہ آہستہ اپنی زبانیں کھولنا شروع کردی ہیں، ان ساری وائرل ویڈیوز کو دیکھ کر مجھے 2002ء کے گجرات (بھارت) کے فسادات کی یاد آگئی جن کا مقصد صرف مسلمانوں کو قتل کرنا، انہیں تباہ و برباد کرنا اور ان کی املاک کو جلانا تھا، فرق یہ تھا کہ وہاں پر پولیس بھی ہندو انتہاپسند لٹیروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی مگر پاکستان میں ہونے والے واقعات میں پولیس بھی رگڑے میں آگئی ، اگر مظاہرین کے مطالبات کو دیکھا جائے تو شاید دنیا کی کوئی حکومت اس قسم کے مطالبات کو پورا نہیں کرسکتی۔ پاکستان تو اس وقت (اور شاید کبھی بھی نہیں) ان مطالبات کو پورا نہیں کرسکتا۔ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطلب یورپی یونین اور یورپی مغربی دنیا کو ناراض کرنا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے اس کی ہلکی سی جھلک امریکہ اور ایران کی کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے دیکھی جاسکتی ہے۔ مغرب سے دشمنی کا مطلب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے تعلقات کا خاتمہ، یورپی اور دوسری اقوام کے ساتھ تجارت کا خاتمہ۔ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا اور پاکستان کو پتھر کے زمانے میں لے جانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ دھرنے والوں کی یہ بات درست ہے کہ فرانس نے توہین رسالتؐ کی ہے اور اس پر پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمان غمگین اور افسردہ ہیں۔ مگر دیکھنا یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سوا دوسرے 53 اسلامی ممالک نے اس پر کیا ردعمل ظاہر کیا، چنانچہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے مغربی دنیا کے ساتھ مذاکرات کرے۔ دانشوروں کی سطح پر مسیحی دانشوروں سے رابطے کرکے انہیں بتایا جائے کہ جس طرح یہودی اور مسیحی پیغمبروں کی توہین جرم ہے، اسی طرح رسول کریمﷺ کی توہین کو بھی جرم قرار دیا جائے، پاکستان کے لوگ مغربی اقوام کے نمائندوں کو پاکستان سے نکال کر اور دنیا سے اپنا ناتہ توڑ کر اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔
تازہ ترین