• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹر رحیق احمد عباسی۔۔۔لندن
ہمارے ہاں مذہب کا ایک ايسا تصور قائم کر ديا گيا ہے جس میں دنیا اور دنیا کے مال کو غلیظ ترین شے سمجھا جاتا ہے، اچھا مکان ،اچھی گاڑی اور اچھا لباس یہ دنیا کی چیزیں ہیں، ظاہر ہے جب وعظ میں ذہد کے وہ تقاضے جو صحابہ کرامؓ میں صرف اصحاب صفہ کا خاصہ تھے کو ہر مسلمان کےلئے ترغیب کے طور پر بیان کیا جائے گا اور سلوک کے وہ ضابطے جو تصوف کی کتب میں ذہد کی اعلی منازل کے متخصصین کے لئے بیان کئے گئے ان کو عام انسانوں کے لئے اسوۂ کے طور پر بیان کیا جائے گا تو لوگوں میں آئیڈیل اہل مذہب کا جو تصور قائم ہوگا وہ ایسا ہی ہوگا جس کے تحت کسی اچھی گاڑی کا استعمال مبلغ کے لئے جائز نہیں سمجھا جائے گا ۔ میں کسی فرد واحد پر اس کا الزام نہیں دے رہا لیکن ہمارے اکثر مبلغین کی صورت حال یہ ہے کہ ان کے بیان میں جن اخلاق کا ذکر ہوتا وہ ان کے برتاو میں نظر نہیں آتا ، وہ خطاب میں جس ذہد و ورع کی ترغیب دیتے ہیں ان کیزندگی میں اس کی جھلک بھی نہیں ہوتی، وہ اپنی تقریروں کو جن واقعات اسلاف سے مزین بیان کرتے ان کا ظہور ان کی شخصیت سے کبھی نہیں ہوتا، وہ جس کردار کا مطالبہ اپنے سامعین سے کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کی اپنی اولاد میں بھی نظر نہیں آتا۔ اس کا دوہرا نقصان ہوتا ہے -پہلا یہ کہ مذہب کا ایک ایسا تصور قائم ہوجاتا ہے جس کے پیمانے پر یہ حضرات خود بھی پورا نہیں اتر سکتے تو دوسرا جس کسی شخص کو ایسے واعظین کی قربت ملتی، ان کے معمولات سے اصل آگہی ملتی ہے تو وہ نہ صرف ان کے قول و فعل کے تضاد کی وجہ سے حضرت واعظ سے متنفر ہو جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات اس کا اعتماد جملہ اہل مذہب سے ہی اٹھ جاتا ہے، جب مریدین اور سامعین کے لیے تو بیان کیا جائے گا دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر رہتا ہے اور اپنا عمل ایسا ہو کہ اپنی ذندگی کے آرام و آرائش کی ہی نہیں اپنی کئی نسلوں تک کے مستقبل کے تحفظ کے لئے ایسی بے چینی ہو کہ دیکھی نہ جائے تو پھر اس تضاد کو چھپانے کےلئے یہ کہنا پڑے گا کہ" تم خود تو دنیا میں رہو لیکن دل میں دنیا کو نہ بساؤ" ۔ اب دل کا حال تو اللہ کے علاوہ کون جانتا ہے ، سو کسی اور کے پاس دنیا ہو تو اس کے دل میں دنیا کی محبت و لالچ کی علامت ہے جب کہ حضرات مبلغ اور ان کی اولاديں جنتا چاہیں دنیا کے مال و اسباب جمع کریں ، محلات نما گھروں کی تعمير کی جائے ، مہنگی ترین گاڑیوں کو استعمال کيا جائے،ہوائی سفر بزنس کلاس کے آرام دہ ماحول میں کریں ،یہ سب تو دنیا میں رہنا ہی ہے دل میں دنیا کو بسانا تھوڑی ہے! اس طرح کے موقف سے چند ارادت مندوں اور مریدوں کی تو شايد مطمئن رکھا جا سکتا ہے ليکن معاشرے میں مذہب کو رائج نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے دور میں وعظ و تبلیغ کے مروج انداز اور ان میں استعمال کیا جانے والا مواد شاید اسی لئے دور روس نتائج کا حامل نہیں ، مذہب کی منزل معاشرے کی تعمیر ہے ہمارے ہاں مذہب تخریب کا باعث بن رہا ہے، مذہب معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتا ہے ہمارے ہاں سب سے زیادہ جھگڑے اور فسادات مذہب ہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں ، ہماری مذہبی کاوشيں ان میں سے کسی ایک مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پا رہی جو قرآن و سنت نے معاشرے کے لئے بیان کئے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ مذہب کی ناقص تفہیم اور اہل مذہب میں قول و فعل کا تضاد ہے، دنیا کی تخلیق اللہ نے اہتمام سے فرمائی اور واضح کیا کہ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں، زمین میں اللہ نے خزانے حضرت انسان کے لئے ہی رکھے، عقل و سائنس میں انسان کی ترقی اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں سے ہی ممکن ہوئی، یہ دنیوی ذندگی ہی آخرت کی کھیتی ہے، لٰہذا دنیا اور اس کے وسائل فی نفسہ انسان کے لئے ہی ہيں، کاروبار اور معاشی وسائل کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے، انسان کو اس دنیا میں وہ ہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے، منع ظلم و استحصال سے کیا گیا ہے، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ناجائز ہے، جائز اور حلال ذرائع سے دنیا کمانا اور اس میں ترقی کرنا کوئی غلط بات نہیں اور کسی کے لئے بھی نہیں، کاش واعظين و مبلغين اس طرح کی باتیں صرف اپنے دفاع میں کرنے کے بجائے اپنے وعظ و تبلیغ کا حصہ بنائیں ، اپنے مریدین اور پیروکاروں کو جائز ذرائع سے دنیا کمانے اور اس میں ترقی کرنے کی ترغیب دیں ، مال و زر کے حصول کی مذمت کے بجائے حلال و حرام ميں تمیز کرنا سکھائيں، زور ترک دنیا پر نہ دیں بلکہ تہذیب اخلاق اور تعمیر شخصیت پر دیں تاکہ ہم اسلام کے آئیڈیل معاشرے کی طرف بڑھیں جس میں ہر کوئی خوش اخلاق اور حامل حسن احوال ہونے کے ساتھ ساتھ خوش حال بھی ہو۔
تازہ ترین