• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانامہ لیکس کی معلومات کے بارے میں جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے دائرہ کار پر ابھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکالمہ اور مناقشہ جاری ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جب ترکی کے دورہ سے واپس آئیں گے تو کمیشن کی تشکیل کے متعلق ان کا فیصلہ کیا ہوگا تاہم اس دوران قومی احتساب بیورو (نیب) نے خاموشی سے کرپشن کے الزامات میں ملوث سیاستدانوں ریٹائرڈ فوجی افسروں اور بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات کے لئے عملی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے اس سلسلے میں مخصوص افراد و شخصیات کی سرگرمیوں کی الیکٹرانک نگرانی اور ان کے اثاثوں کے اعدادو شمار جمع کرنے کے لئے اعلیٰ ترین سول انٹیلی جنس ادارے آئی بی کی مدد طلب کر لی ہے، نیب فی الوقت ڈی ایچ اے سٹی منصوبے اوراین ایل سی میں اربوں روپے کے مبینہ گھپلوں کی تحقیقات کر رہا ہے اور دو سابق وزرائے اعظم، سابق وزراء اور سینئر بیوروکریٹس کے معاملات بھی اس کے زیر تحقیق و تفتیش ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے الیکشن کمیشن سے موجودہ وزیراعظم ، وفاقی وزراء اور پارلیمانی قائدین سمیت ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں جن کی کسی وقت بھی انکوائری شروع کی جاسکتی ہے۔ نیب کے ریجنل دفاتر کو صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے اثاثوں کی تفصیلات بھی محفوظ کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ گویا ملک گیر سطح پر کرپشن کے خلاف جامع تحقیقات کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ نیب یعنی قومی احتساب بیورو کا قیام 6 نومبر 1999میں اس وقت عمل میں آیا تھا جب حکومت وقت کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کرپشن کی وجہ سے ناکام ریاست قرار پانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ نیب نے ایک خود مختار آئینی ادارے کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اس کا مشن پرائیویٹ ، سرکاری، ڈیفنس اور کارپوریٹ سیکٹرز میں مالی بدانتظامی، اقتصادی دہشت گردی اور کرپشن کا خاتمہ ہے۔ آئین کے تحت وہ تحقیقات اور تفتیش کے علاوہ ملزموں کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر سکتا ہے۔ اپنے قیام کے وقت سے اب تک اس نے کرپٹ سیاستدانوں بیوروکریٹس سابق فوجی افسروں اور وائٹ کالر کرائمز میں ملوث افراد سے تقریباً چار ارب ڈالر بازیاب کرائے ہیں۔ لیکن اس پر مختلف ادوار میں کئی حوالوں سے تنقید بھی ہوتی رہی ۔ یہ تاثر ہمیشہ موجود رہا کہ نیب کی سرگرمیاں اپوزیشن کو دبانے اور حکومتوں کے کام آنے تک محدود ہیں۔ خاص طور پر اس کے پلی بارگین کے طریق کار پر سب سے زیادہ تنقید کی گئی۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ عدالتوں میں پیش کئے جانے والے مقدمات میں استغاثہ کی کمزوریوں کی وجہ سے کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے اکثر ملزم سزا سے صاف بچ جاتے ہیں۔ ان باتوں کے باوجود نیب ملک میں مالی بے ضابطگیوں اور اقتصادی بدعنوانیوں کو روکنے والا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے۔ اس کے کام کو مزید موثر اور معتبر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے ملکوں میں اسی طرز کے اداروں کی طرح اسے مزید بااختیار اور مضبوط بنایا جائے اور ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے مکمل طور پر آزاد کیا جائے، نیز اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اسے اسی طرح کا کام کرنے والے دوسرے تمام اداروں سے کام لینے کا اختیار دیا جائے خاص طور پر آئی بی کے تعاون سے استغاثہ کے معاملات مزید بہتر ہوسکتے ہیں اور کام کی رفتار میں تیزی آسکتی ہے۔ نیب اس وقت بھی کئی میگا سکینڈلز کی تحقیقات میں مصروف ہے جن میں سیاستدان بیوروکریٹس سابق فوجی افسر اور کاروباری شخصیات ملوث ہیں، اسے مکمل طور پر با اختیار بنادیا جائے تو پھر پانامہ لیکس کی طرح کے معاملات کے لئے جوڈیشل کمیشنوں اور تحقیقاتی کمیٹیوں کے قیام کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ ملک میں حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر اس سلسلے میں قانون سازی سمیت تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ایک خود کار نظام کے تحت احتساب کا سلسلہ بلا تعطل چلتا رہے اور چھوٹا یا بڑا کوئی بھی محاسبے سے نہ بچے۔
.
تازہ ترین