• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سال پہلے کی بات ہے۔ سرتاج عزیز پاکستان کے وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے بجٹ کا اعلان کیا تو میں نے جناب حبیب جالب کو فون کیا اور بجٹ پر اُن کی رائے طلب کی۔ جالب صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا برخوردار میں شاعر آدمی ہوں اور بجٹ پر تبصرہ بھی شاعرانہ انداز میں کروں گا۔ مجھے تو ان کی رائے چاہئے تھی میں نے کہا جی ارشاد فرمایئے۔ جالب صاحب نے فوراً کہا…
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہو جاتا ہے جھٹکا
جالب صاحب نے وفاقی بجٹ پر پوری نظم کہہ ڈالی۔ میں نے یہ نظم نوٹ کی اور روزنامہ جنگ لاہور کے نیوز روم کو فراہم کر دی۔ اگلے روز ”جنگ“ نے پوری کی پوری نظم صفحہ اول پر شائع کر دی اور سرتاج عزیز اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔ کئی سال گزر چکے ہیں۔ ہر سال جب بھی بجٹ کا اعلان ہوتا ہے تو مجھے جالب صاحب کی یہی نظم یاد آ جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ ہر وزیر خزانہ اپنی بجٹ تقریر میں دعویٰ تو یہی کرتا ہے کہ وہ غریبوں پر کم اور امیروں پر زیادہ بوجھ ڈالے گا لیکن آخر کار اس کا بجٹ غریبوں کا جھٹکا ثابت ہوتا ہے۔ نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گیارہ جون کی شام جو اقتصادی سروے پیش کیا وہ صاف بتا رہا تھا کہ ہماری معیشت دراصل تباہی و بربادی کا ملبہ ہے اور اس ملبے سے فوری طور پر کوئی اچھی خبر تلاش نہیں کی جا سکتی لیکن اس کے باوجود ڈار صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ صرف 60 دن میں 500 ارب روپے کے گردشی قرضے ختم کر دیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بجلی کی قیمت میں چھ روپے فی یونٹ اضافہ کرنا پڑے گا لیکن یہ اضافہ مرحلہ وار ہو گا۔ اضافہ ایک دفعہ ہو یا تین مرحلوں میں ہو لیکن اصل جھٹکا تو غریبوں کا ہو گا۔ 12 جون کو اسحاق ڈار نے نئے بجٹ کا اعلان کر دیا۔ اُن کے کئی اعلانات کو اقتصادی ماہرین نے درست سمت کی طرف پیش قدمی قرار دیا کچھ اقدامات کو مجبوری کہا گیا اور کچھ اقدامات پر تنقید بھی کی گئی لیکن یہ طے ہے کہ بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ 60 دن کوئی زیادہ لمبا عر صہ نہیں ہے۔ 60 دن میں 500 ارب روپے کا گردش قرضہ ادا ہو گیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم اپنی معیشت کو سنبھال سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے اردگرد موجود چوروں کو بے نقاب کرنا ہو گا۔
اسحاق ڈار اس حقیقت سے انکار نہیں کریں گے کہ 500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کا بڑا حصہ دراصل قرضوں کے نام پر چوری کی وارداتیں تھیں۔ چوری کی یہ وارداتیں بند ہو جائیں تو گردشی قرضوں کا بھونچال بھی ختم ہو جائے گا۔ نئی حکومت اور اس کے وزیروں کا سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ وہ ان چوروں کو کب اور کیسے پکڑتے ہیں؟ ان چوروں کی کئی اقسام ہیں۔ کوئی ٹیکس چور ہے، کوئی بجلی چور ہے، کوئی گیس چور ہے، کوئی قرضہ خور ہے اور کوئی سرکاری افسران کی پوسٹنگ یا ٹرانسفر بھی لاکھوں کروڑوں روپے میں بیچتا ہے۔ ان چوروں کا کمال یہ ہے کہ کوئی انہیں چور نہیں کہتا۔ یہ چور صاحبان اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی انتہائی معزز کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ا ن میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ یہ چور صاحبان منتخب ایوانوں میں بیٹھ کر چور مچائے شور کے محاورے میں حقیقت کے رنگ بھرتے نظر آتے ہیں۔ اور کرپشن کے خلاف بھرپور تقریریں کرتے ہیں۔ نئی قومی اسمبلی میں ایسے چوروں کی تعداد پچھلی اسمبلی کی نسبت کافی کم ہے لیکن میں مسلم لیگ (ن) کو خبردار کر رہا ہوں کہ اس کی صفوں میں موجود بجلی چور اور گیس چور سرگرم ہو چکے ہیں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے نئے وزیروں کو سرعام دعوت گناہ دینے میں مصروف ہیں۔ ایسی ہی ایک دعوت گناہ نئی وفاقی کابینہ کی تقریب حلف برداری کے فوراً بعد ایوان صدر کے اندر دیکھنے میں آئی۔ راوی کا کہنا ہے کہ حلف کے بعد تمام وفاقی وزراء، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر مہمان چائے کے لئے ڈائننگ ہال کی طرف روانہ ہوئے تو ایک اہم کاروباری شخصیت نے وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو گھیر لیا اور انہیں وزیر بننے پر مبارکباد دی۔ خواجہ صاحب نے مبارکباد قبول کی اور مسکرا کر آگے بڑھ گئے لیکن مبارکباد دینے والی شخصیت ان کے ساتھ چپک کر پانچ منٹ کیلئے گوشہ تنہائی میں سرگوشیوں کی طلب گار تھی۔ خواجہ صاحب کی گھاگ نظروں نے خطرہ بھانپ لیا اور جان چھڑانے کی کوشش کی تو تنہائی میں گفتگو کی طلب میں مبتلا شخصیت نے انہیں کہا کہ جناب ایک نئی نویلی مرسڈیز گاڑی آپ کو گفٹ کرنا چاہتا ہوں یہاں سے باہر نکلتے ہی یہ گاڑی آپ منتظر ہو گی۔ خواجہ محمد آصف کو سمجھ آ چکی تھی کہ گاڑی کا تحفہ دراصل دعوت گناہ کا ایک اندازہ ہے۔ انہوں نے اس دعوت گناہ پر سیخ پا ہو کر سیالکوٹ لہجے میں پنجابی خرافات کے تیر برسانے شروع کئے تو ان سے چپکے ہوئے معزز چور نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار شاپنگ پلازہ میں جیولری کی نئی دکانیں کھل چکی ہیں اور قیمتی ہیرے موتیوں کے ہار بیگم خواجہ محمد آصف کی نظر کرم کے منتظر ہیں۔ یہ سن کر خواجہ صاحب کو پسینہ آ گیا اور وہ تیزی کے ساتھ معزز لوگوں کے ہجوم میں غائب ہو گئے۔ ذرا سوچئے! دس سال تک وہ اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر کرپشن اور چوری کے خلاف تقریریں کرنے والا ایک سیاستدان گیارہویں سال الیکشن جیت کر وزیر بنتا ہے اور ایوان صدر میں چور اس کو گھیر لیتے ہیں۔ خواجہ محمد آصف اس چور کی نظروں سے بچتے ہوئے لفٹ کی طرف کھسکنے لگے تاکہ موقع سے فرار ہو کر دعوت گناہ سے نجات پائیں لیکن دعوت گناہ لفٹ کے سامنے انتظار کر رہی تھی۔ خواجہ صاحب کو دیکھتے ہی دعوت گناہ مسکرائی اور ان کے قریب آئی تو خواجہ صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ انہوں نے اس بے غیرت شخص کو تھپڑ مارنے کے لئے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا ہی تھا کہ سامنے سے جنرل اشفاق پرویز کیانی آتے ہوئے دکھائی دیئے۔
خواجہ صاحب نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر اپنا اٹھا ہوا ہاتھ بالوں پر پھیرا اور پھر پینٹ کی جیب میں ڈال کر غصہ پی گئے۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی جان بچا کر ایوان صدر سے فرار ہو گئے لیکن انواع و اقسام کے چور ان سمیت نئی نویلی کابینہ کے وزیروں کی سیاسی دوشیزگی کو داغدار کرنے کے لئے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وزیروں کے لئے یہ چور سب سے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ یہ چور دوست بن کر آتے ہیں، اہل اقتدار کو شریک جرم بناتے ہیں اربوں روپے لوٹتے ہیں، اقتدار والوں کو عبرت کی مثال بناتے ہیں اور پھر نئی حکومت کو بے وقوف بناتے ہیں۔ ان چوروں کو بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔ ہماری اطلاع کے مطابق جس چور نے خواجہ محمد آصف کو ایوان صدر میں دعوت گناہ دی اس نے اپنا وزٹینگ کارڈ ان کی جیب میں ڈال دیا تھا۔ خواجہ صاحب بسم اللہ کیجئے۔ اس چور کی چوریوں کو ڈھونڈ کر بے نقاب کیجئے تاکہ چوروں کو پتہ چل جائے کہ وقت بدل گیا ہے اب نہ چوری چلے گی نہ ہی چوروں کی سینہ زوری چلے گی۔
تازہ ترین