• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم ٹائیٹینک میں دکھائی گئی کہانی اور حقائق میں تضادات پائے جاتے ہیں

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) تقریباً 109 برس قبل ایک بحری جہاز شمالی بحر اوقیانوس میں رواں دواں تھا کہ رات ساڑھے 11 بجے کے قریب برفانی تودے سے ٹکرا گیا۔ جہاز میں عملے سمیت 2224 افراد سوار تھے جن میں سے ڈیڑھ ہزار سے زائد موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے۔ اس افسوس ناک حادثے کو تاریخ کے صفحات سے نکال کر ہماری زندگی کا جیتا جاگتا حصہ بنانے میں بنیادی کردار جیمز کیمرون کی 1997میں ریلیز ہونے والی فلم ’ٹائٹینک‘ کا ہے۔فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ محض کہانی نہیں بلکہ حقیقی لوگوں کے ساتھ حقیقی زندگی میں پیش آنے والا ایک حادثہ تھا، جس میں واقعی موت زندگی کو نگل گئی۔ مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ شاید ہی بعد میں کوئی اس موضوع پر فلم بنائے، اس لیے میری ذمہ داری ہے کہ اصل سے قریب تر رہ کر اس کا جذباتی تاثر پوری شدت کے ساتھ پردے پر اتاروں۔ جیمز کیمرون نے کہانی سے ہماری جذباتی وابستگی استوار کرنے کے لیے محبت کا سہارا لیا۔ فلم کے ابتدائی مناظر میں ایک جگہ روز کی ماں کہتی ہیں کہ ’تو یہ وہ جہاز ہے جس کے بارے میں سنا ہے کبھی نہیں ڈوب سکتا۔‘ ایسا دعویٰ کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا لیکن فلم کی وجہ سے یہ دیومالائی سچ کا روپ دھار چکا ہے اور لوگ اس دعوے کو حقیقت پر مبنی سمجھتے ہیں۔جہاز ڈوب رہا ہے اور زندہ بچنے کی مدھم سی امید چند حفاظتی کشتیوں کی صورت میں موجود ہے۔ ایسے میں ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ پہلے سوار ہو سکے۔ گنجائش کا خیال نہ رکھا جائے تو کوئی بھی نہیں بچ سکتا اس لیے صورت حال قابو میں رکھنے کے لیے ایک آفیسر پستول تانے لوگوں کو روکتے ہیں۔ یہ ولیئم مک ماسٹر مرڈوک تھے، جنہیں ان کے آبائی شہر میں آج بھی ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین