• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محاورہ تو یہ ہے کہ ”ابھی تو کفن بھی میلا نہیں ہوا“ لیکن میں اس محاورے کو تبدیل کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ … ”ابھی تو دلہن کا عروسی جوڑا بھی میلا نہیں ہوا کہ ”میاں بیوی“ میں دھول دھپہ شروع ہوگیا۔ یعنی ”ہنی مون“ کے دوران ہی ”ہنی“ کا پیالہ الٹ گیا اور ”مون“ کو گرہن لگنا شروع ہوگیا جسے اک اور محاورے کے مطابق کچھ اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ”سر منڈاتے ہی اولے پڑنے لگے“۔ ”چوہا بل میں سماتا نہیں، دم سے بندھ گیا چھاج“ جیسا محاورہ بھی صورت حال کو سمجھنے میں خاصی مدد کرسکتا ہے۔ یوں بھی کہتے ہیں کہ آٹے کا چراغ ہو تو اندر چوہے اور باہر کاغ یعنی کوے نہیں چھوڑتے۔
پشاور سے ملتان تک مع فیصل آباد ماتمی صفیں بچھی ہیں۔ کچھ ”پھوڑی“ پر بیٹھے ہیں کچھ نعرے لگا رہے ہیں، کچھ توڑ پھوڑ میں مشغول ہیں، کچھ آگ لگا رہے ہیں۔ ہر طرف ہی لوڈشیڈنگ کی دہائی ہے۔ اللہ نہ کرے یہ جنگل کی آگ کے انداز میں پھیلنا شروع کردے۔ سب کچھ توقعات سے بہت ہی پہلے شروع ہوگیا۔
خواجہ آصف نے جنہیں ”چور“ کہا ٹھیک کہا لیکن کچھ سچ پی جانے کیلئے ہوتے ہیں، اوپر سے جلتی پر تیل کہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ دنوں، ہفتوں، مہینوں کا نہیں سالوں کا معاملہ ہے تو بھائی! الیکشن مہم کے دوران تو حضور کے تیور بتا رہے تھے، یہ تاثر دے رہے تھے کہ ادھر آپ تشریف لائے ادھر اندھیرے نے دوڑ لگائی اسی لیے میں نے چھیڑا بھی تھا کہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے تو ایسے کررہے ہو جیسے ”بجلی بھری ہو تیرے انگ انگ میں“۔ رہ گئی خزانہ خالی ہونے والی گردان تو سیاسی سقراطو! مجھ جیسے کو دن کو ”بیلی پور“ میں بیٹھے معلوم تھا کہ خزانہ خالی ہے اور لوڈشیڈنگ فوری طور پر حل ہونے والا مسئلہ نہیں تو اقتدار کیلئے اتنی بیتابیاں کیوں تھیں؟ اگر آپ حالات سے واقف نہ تھے تو آپ سب سیاست چھوڑ کر کوئی اور ذرا کم منافع بخش کاروبار کریں اور اگر آپ سب حقائق جانتے تھے تو پھر اب ڈائیلاگ بازی بند کر کے جلد از جلد ڈلیور کرنا شروع کرو ورنہ سمجھ لو کہ … ”چار دن کی کوتوالی جس کے بعد پھر وہی کھرپا پھر وہی جالی“۔ خوشامدیئے اشتہار پر اشتہار مار رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ کہ چھپر پر پھوس نہیں لیکن ڈیوڑھی میں نوبت اور نقارہ بج رہا ہے۔ قصے کہانیاں سنانا بند کرو کہ رات تھوڑی اور سوانگ بہت لمبا یعنی وقت کم اور کم بہت زیادہ ہے۔ ن لیگ کی حکومت پر ترس آتا ہے کہ حال ایسا جیسے کنواری کو ارمان، بیاہی پشیمان، رانڈ کو حرمان یعنی کسی حالت میں نہ خوشی نہ سکھی۔ کچھ مہم جوؤں کو ایڑیاں اٹھااٹھا کر پھانسی چڑھنے کا شوق ہوتا ہے، جان چاہے جاتی رہے، ابوجہل کی طرح ”سر بلند“ تو نظر آئیں گے۔ کہتے ہیں کہ کم بختی آئے تو اونٹ پر بیٹھے کو بھی کتا کاٹ کھائے۔ طنزاً یا مذاقاً نہیں سچ مچ مجھے ن لیگ سے ہمدردی سی محسوس ہورہی ہے کہ انہیں ان گناہوں اور جرائم کی سزا بھی بھگتنی ہوگی جو انہوں نے کیے ہی نہیں۔
یہ جو عمران خان اور آصف زرداری صاحبان الیکشن میں دھاندلی اور کسی بین الاقوامی سازش کی بات کرتے ہیں تو اول میں اسے سنجیدگی سے لیتا ہی نہیں لیکن بالفرض یہ سازش تھیوری مان بھی لی جائے تو پھر سچ یہ ہے کہ یہ سازش نہ پیپلز پارٹی کے خلاف ہے نہ تحریک انصاف کے کہ موجودہ حالات میں کسی کے اقتدار کا راستہ ہموار کرنا اسے زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اقتدار سولہ سنگھار نہیں زہر بجھی تلوار ہے، ایسا اقتدار دوستی نہیں دشمنی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ قومی ہو یا بین الاقوامی، لوکل ہو یا گلوبل … ان سب نے مسلسل تجربوں کے بعد یہ حقیقت سیکھ، سمجھ کر تسلیم کر لی ہے کہ سیاست دانوں کو صرف اور صرف سیاسی موت ہی مارا جاسکتا ہے جس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں مثلاً اس ملک کے مقبول ترین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو رگید رگید کر بے رحمی کی آخری انتہا کے ساتھ پھانسی گھاٹ سے آخری سفر پر اس طرح روانہ کیا گیا کہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کا نعرہ نہ مارا جاسکا، گڑھی خدا بخش کی رونق بڑھتی رہی، بھٹو قبر میں آسودہ اقتدار سے کھیلتا رہا، اس کی بیٹی دو بار اقتدار میں آئی اور آج بھی اس کا داماد تمام تر کردار کشی کے باوجود صدر مملکت ہے۔ مقدمات اور جیلیں بے نظیر اور آصف زرداری کا کچھ نہ بگاڑ سکے… لیکن اقتدار نے ان کا دھڑن تختہ کردیا۔ اب بھی اگر بلاول، بختاور اور آصفہ میں سے کوئی اس قابل نکل آیا تو معاملہ پھر وہیں جا پہنچے گا۔
”تم کتنے بھٹو مارو گے…ہر گھر سے بھٹو نکلے گا“
دوسری طرف اگر ”کسی“ نے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر یا فاطمہ بھٹو کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور ان میں کوئی چنگاری بھی موجود ہوئی تو اسے آتش فشاں بننے میں دیر نہیں لگے گی۔نوازشریف خود بھی اک نسبتاً چھوٹی لیکن عمدہ مثال سے کسی طرح کم ہیں۔ تمام تر توہین و تذلیل، مقدموں، ہتھکڑیوں اور جلاوطنیوں کے باوجود نوازشریف کو سیاسی طور پر مارا نہیں جاسکا اور ایسا کچھ ہو بھی جاتا تو نوازشریف زیادہ ”لیتھل“ ثابت ہوتا کہ آخری درجہ کا ہیرو دراصل ”ٹریجک ہیرو“ ہی ہوتا ہے۔ انجام جتنا المناک و دردناک ہوگا ”ہیرو“ بھی اتنا ہی لاڈلا، اعلیٰ و برتر ہوگا۔ مختصراً یہ کہ سچ مچ کے ”مقتدر“ مقامی ہوں یا غیر مقامی اس نتیجہ پر پہنچ چکے کہ سیاستدان کو سیاست کے میدان میں ہی مارنا چاہئے ورنہ اس سے جان نہیں چھٹتی … اور میدان لگ چکا۔اول تو میں مانتا نہیں لیکن اگر واقعی الیکشن کے نتائج کے پیچھے کوئی ”سازش“ ہے تو سوچو یہ ہے کس کے خلاف؟ وہ کون ہے جسے اقتدار میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور مار دھاڑ، چیخ و پکار، توڑ پھوڑ، ماتم اور زنجیر زنی شروع بھی ہو چکی۔ حجلہٴ عروسی میں ہی ہتھیار چلنے لگے تو یہ کاروبار کتنی دیر تک؟
تازہ ترین